سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا کردار

تعلیم کسی بھی قوم یا معاشرے کی ترقی اورقوموں کے عروج کی ضامن ہے تعلیم حاصل کرنے کا مطلب صرف سکول‘کالج یونیورسٹی سے کوئی ڈگری حاصل کرنا مقصود نہیں بلکہ اسکے ساتھ معاشرتی اقدار و تہذیب سیکھنا بھی شامل ہے حالیہ سرکاری سکولوں کے میٹرک اورجماعت نہم کے نتائج کے حوالے سے بعض حلقوں کی جانب سے اساتذہ اکرام کی کارگردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں مگر تعلیمی معیار کی بہتری کے لیے جہاں ہم اساتذہ کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں وہاں والدین بھی تنقید کی زد میں آتے ہیں لیکن ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلانے کی بجائے ہمیں نظام تعلیم میں پائی جانے والی خامیوں اور والدین اور اساتذہ کے مابین رابطوں کے فقدان پر بھی بات کرنا ہوگی جس سے بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں اگر ہم پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کا تقابلی جائزہ لیں تو سرکاری سکولوں کی نسبت نجی تعلیمی ادارے قدرے بہتر نتائج دیتے ہیں جسکی بڑی وجہ بہتر ایڈمنسٹریشن کو قرار دیا جاسکتا ہے پرائیویٹ سکول کے ٹیچر جنکی تنخواہیں بھی سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی نسبت کم ہوتی ہیں مگر نتائج بہتر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سرکاری سکولوں پر عوام کا اعتماد اٹھتا جا رہا ہے اور والدین اپنے زہین اور فطین بچوں کو سرکاری سکولوں کی بجائے پرائیویٹ اداروں میں داخلے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ وہ بچے سرکاری سکولوں میں داخل کرائے جاتے ہیں جو پڑھائی میں انتہائی کمزور ہوتے ہیں دوسری اہم وجہ پرائیویٹ اداروں میں والدین اور اساتذہ کے مابین زیر تعلیم بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں کو جانچنے کیلیے باقاعدہ میٹنگ کا انعقاد کیاجاتا ہے اور کمزور بچوں کی رہنمائی کیلیے اساتذہ اور والدین مل کر بچے کی تعلیمی سرگرمیوں میں عدم دلچسپی کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی تبادلے خیال کرتے ہیں اور سنجیدہ گفتگو کے زریعے اسکی وجوہات کی روشنی میں مناسب حل تلاش کیا جاتا ہے جس سے بچے کی تعلیمی کارگردگی میں بہتری آئے جبکہ سرکاری سکولوں میں ماہانہ طرز پر ایسی میٹنگ کا انعقاد نہیں کیا جاتا جس میں بچوں کے والدین شریک ہوں جبکہ والدین کی عدم توجہی بھی شامل حال ہوتی ہے والدین بچے کو سکول میں بھیج کر اپنی تمام تر زمہ داریوں سے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں مگر ہونا تو یہ چاہیے کہ والدین وقتا فوقتا سکول کے ہیڈ سے ملاقات کریں اور اپنے بچوں کی تعلیمی کارگردگی کے بارے میں معلومات لیں لہذا والدین کی لاپرواہی کو اساتذہ کے پلڑے میں نہیں ڈالا سکتاغریب گھرانوں کے جو بچے سرکاری اسکول میں بہتر کارگردگی نہیں دکھاتے اور معاشی پریشانیوں میں مبتلا والدین جو پرائیویٹ سکول کی فیس ادا نہیں کرسکتے ان بچوں کو مدارس میں بھیج دیا جاتا ہے پہلے دور میں سرکاری سکولوں میں سزا کا نظام رائج تھا شرارت اور پڑھائی میں کمزور بچوں کو سبق نہ یاد کرنے پر ڈنڈوں سے سزا دی جاتی تھی تاہم اس دور میں اگر کسی لائق بچے سے بھی سبق میں بھول ہوجاتی تو اساتذہ بچوں کو مرغا بنا کر نالائق بچوں کے ہاتھوں اس بچے کو جوتے مرواتے تھے جو انسانیت کی تذلیل کے مترادف تھا مگر اب حکومت پنجاب کی جانب سے مار نہیں پیار کا جیسے اصول متعارف کرانے سے طلبا کے مارپیٹ کا عنصر اب زائل ہوچکا ہے اور سرکاری سکولوں میں اعلی تعلیم یافتہ اساتذہ کی تعیناتی سے بھی بچوں کی اخلاقیات پر اسکے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں ہم والدین بچے کو صبح سکولوں میں بھیج کر اپنی زمہ داریوں سے بری الذمہ سمجھتے ہیں مگر ایسا ہرگز مناسب نہیں والدین کو اپنے بچے کی تعلیمی کارگردگی پر نظر رکھنے کیلیے مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ سکول میں ضرور جانا چاہیے اور متعلقہ مضامین کے کلاس ٹیچر سے بچے کی تعلیمی سرگرمیوں کے حوالے سے تبادلے خیال کرنے کے علاوہ گھر پر بچے کو ہوم ورک باقاعدہ روزانہ کی بنیاد پر مکمل کروانا چاہیے گھر کا ماحول بھی بچے کی تعلیمی کارگردگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے اگر گھر میں بے چینی لڑائی جھگڑے اور مذہبی و اخلاقی اقدار زوال پذیر ہوں تو بچے کی ذہنی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے اور اسکا دل پڑھائی سے اچاٹ ہوجاتا ہے لہذا والدین بچوں کی بہتر تعلیم وتربیت کیلیے گھر کے ماحول کو بھی بہتر بنانے پر توجہ دیں اور اپنے بچوں کی سوسائٹی میں اٹھنے بیٹھنے پر بھی نظر رکھیں اس بات بھی خاصہ وزن ہے کہ جس معاشرے میں بچے گھر میں والدین کی عذت نہ کریں اور انکی حکم عدولی پر اتر آئیں تو پھر آپکے خیال میں وہ بچے سکول میں جاکر اساتذہ کیساتھ تہذیب کا رویہ برقرار رکھیں گے یہ امید رکھنا ناممکن ہے کیونکہ اساتذہ کا ادب و احترام کرنا طالب علم کے لیے حصول علم کا پہلا زینہ ہے جو بچے پہلے زینے سے پھسل جاتے ہیں اور اساتذہ کی توقیر نہیں کرتے وہی سے انکی ناکام زندگی کا سفر شروع ہوجاتا ہے جسکی بظاہر منزل نہیں ہوتی ہمارا تعلیمی نظام کا شمار دنیا کے زوال پذیر تعلیمی نظاموں میں ہوتا ہے ہمارے پاس ڈگری ہولڈرز کی تو کثرت ہے مگر ہنرمند افراد نہیں لہذا وقت کیساتھ ہمیں سرکاری تعلیمی اداروں میں ٹیکنیکل یونٹ کے قیام پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ پڑھائی میں دلچسپی نہ لینے والے بچوں کو مختلف ہنر سکھائے جائیں تاکہ آگے چل کر وہ اپنی عملی زندگی اور مستقبل کے معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں یاد رہے5اکتوبر کویوم اساتذہ یعنی سلام ٹیچر ڈے منایا جاتا ہے جسکا مقصد معاشرے کی تعمیر میں استاد کی اہمیت و کردار کو اجاگر کرنا ہوتا ہیاس دن دنیا بھر میں سیمینار اور تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور استاد کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں