سرکاری ملازمین کے ساتھ غیرمساویانہ سلوک

ایک زمانے سے پے اینڈ پنشن رپورٹ ہر سال بنائی جاتی تھی اس سے قبل 1969میں جب ائیر مارشل نور خان وزیر محنت بنائے گئے توکوئی قانونی تنخواہ اور پنشن کا برائے نام ایک بورڈ تھا

جو اپنے اپنے ادارے کے حوالے سے تنخواہ مقرر کرتا تھا اس وقت تنخواہ کے کوئی اسکیل نہیں تھے برائے نام اسکیل نمبر ایک کی تنخواہ پچپن روپے مقرر تھی اور سالانہ اضافہ پچاس پیسے ہوا کرتا تھا

پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو پھر پے اینڈ پنشن کمیٹی بنا کراسکیل نمبر ایک تا اسکیل نمبر بائیس مقرر کیا گیا

بعد میں وزیرخزانہ ڈاکٹر مبشر حسن اور ذوالفقارعلی بھٹو نے ایک کمیٹی تشکیل دی تب سے یہ کمیٹی 1675تک کام کرتی رہی کلاس فور ملازمین اور دیگر ملازمین کی تنخواہ میں فرق کو دور کرنے کے لئے کام انجام دیا گیا

اور درجہ چہارم کا داغ دھو دیا گیا اور تمام ملازمین کو اسکیل وائزتسلیم کیا گیا اور ملازمین سے یک مشت پنشن یا گریجو یٹی لینے کے لئے آپشن دیا گیا اکثر ملازمین نے پنشن اسکیم کو قبول کیا

اور اس طرح ساٹھ سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن جنرل پراویڈ نٹ فنڈ اور گریجو ٹی ریٹا ئرمنٹ پر دے دی جاتی تھی یہ ایک بہتر نظام تھا

اب تازہ خبروں میں بتایا جارہا ہے کہ پنشن میں کٹوتی ہو گی اور بیوہ کو صرف دس سال تک پنشن ملے گی اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وزارت خزانہ یا پھر حکومت نے ایک نئی پالیسی کا اعلان کیا ہے

جو کہ سراسر غلط ہے اور حقیقت پر مبنی نہیں ہے اور اس سے تمام سرکاری ملازمین میں گہری تشویش پائی جاتی ہے اور رنج وغم کا اظہار کیا جارہا ہے

جس کے تحت اسکیل نمبر 17 تا 22 کے اسکیل یا گریڈ میں کافی اضافہ جبکہ اسکیل نمبر ایک تا اسکیل نمبر16کی تنخواہوں اور پنشن میں کٹوتی ہوگی

لائف ٹائم کا سٹ مراعات اور آپر یٹنگ اخراجات کا مشترکہ تنا سب 17تا22کے گریڈ کے مقابلے میں نچلے گریڈ میں بہت زیادہ یعنی نیچے اور اوپر فائدہ ہے لائف ٹائم کاسٹ آف پبلک سرونٹ کے عنوان سے خبریں چھپی ہیں

اس کے عنوان سے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق اسکیل نمبر22کے ملازمین کو اسکیل نمبر ایک کے ملازم کو 33 گنا ملنے والے تنخواہ کی سطح کے درمیان کافی

فرق کے ساتھ یہ مراعات ملیں گی جس میں بڑی عدم مساوات کی نشاندہی کرتا ہے

اس وقت پاکستان بیورو آگ اسٹیٹکس کے مطابق دسمبر 2022 تک پاکستان میں وفاقی اداروں میں سرکاری ملازمین کی تازہ ترین تعداد تقریباً تیرہ لاکھ 75ہزار ہے

اس تعداد میں شہری مسلح افواج اور خود مختاراداروں اور کار پور یشنر بھی شامل ہیں حکومت اپنے ملازمین پر تنخواہ اور پنشن کی فراہمی پر کافی رقم خرچ کرتی ہے

ان ملازمین کو ادائیگی کے لیے تقریباً تین کھرب روپے تنخواہ اور ڈیڑھ کھرب روپے پنشن کی لاگت آتی ہے اسی طرح پروجیکٹ ورکز سرکاری کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین

یا افراد پر اور دیگر تنظمیوں پر تقریباً ڈھائی کھرب روپے لاگت آتی ہے فوج کی تنخواہوں اور پنشن پر خرچ ہونے والی رقم تقریبا ایک کھرب روپے

بنتی ہے اس طرح بڑے گریڈوں پر کام کرنے والے افسران کو تنخواہ اور لاؤنسز کا تنا سب مزید بڑھ جاتا ہے ان کی سرکاری رہائش گاہ موٹر گاڑیاں میڈیکل کی سہولت اس کے علاوہ پر ائیویٹ میڈیکل بلوں کی تعداد

پر بھی بھاری رقم خرچ کی جاتی ہے اس کے علاوہ کرپشن اور رشوت کا پیسہ الگ ہے جبکہ گریڈ ایک تا 16 گریڈ کے ملازمین اس سے محروم ہیں

جو کہ سراسر ظلم ہے دوسری طرف پنشنن کے بارے میں نئے قوانین بنائے جارہے ہیں یعنی پے اینڈ پنشن کی رپورٹ رد کردی ہے اور نئی اصلاحات کے تحت ملازمین کی بیوہ کو صرف دس سال تک پنشن دی جائے گی

جو سراسر ظلم کے مترادف ہے جبکہ فوجی ادارے کے ملازمین کی بیوہ اور بچوں کو بیس سال تک پنشن دی جائے گی اس کی کیا وجہ ہے؟

اگر کسی ملازم کا بچہ یا بیٹی معذور ہے تو اس کو یا تو ملازم رکھا جائیگا اور تا حیات پنشن دے جائے گی لیکن گزارش کرنی ہے جبکہ بعض ملازمین دوران ملازمت انتقال کر جاتے ہیں

اور ان کی بیوی جوان اور بچے چھوٹے ہیں تو بیوہ کو صرف دس سال تک پنشن ملے گی ا س لیے ہم مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ حکومت اپنے پرانے سسٹم کو بحال رکھے گزشتہ 24 اکتوبر کواس سلسلے میں ملک بھر میں بھر پور جلوس اور بھوک ہڑتال بھی کی گئی ہے

نگران اور عبوری حکومت کا یہ اقدام درست نہیں ہے پنشن سکیم کا مطالبہ آنے والی منتخب حکومت کے لئے رہنے دیجئے اور کام نئی حکومت کو کرنا ہو گا دوسری جانب 35فیصد کے بجائے 25فیصد گریجویٹی رقم دے جائے گی

اسی طرح پنشن میں آئندہ صرف دس فی صد اضافہ کیا جائے گا مہنگائی چاہے 100 فی صد بڑھ جائے مگر اضافہ صرف دس فی صد ہی ملے گا یہ کہاں کاانصاف ہے

سترفی صد کے بجائے 35صد ادا کی جائے گی جس کی وجہ سے نچلے یا دوسرے درجے کے ملازمین کی نہ صرف پنشن کم ہو گی بلکہ کوئی بھی میڈیکل کی سہولت بچوں کی تعلیم اور ان کی رہائش کا مسئلہ حل ہو سکے گ

ا سرکاری ملازمین کی تنخواہ سے پہلے ہی انکم ٹیکس کا ٹ دیا جاتا ہے جبکہ بڑے بڑے جا گیر دار سرمایہ دار بنکوں اور انشو رنس کمپنیوں کے مالکان اور بڑے پلازوں کے

ملکان،چھوٹے دکاندار وں سے لے کر بڑے سرمایہ کاروں سے برائے نام انکم ٹیکس لیا جاتا ہے اور ایف بی آر ان کے ساتھ ملی بھگت کرتا ہوا نظر آتاہے ہمارے اس ملک کا نظام ہی سرمایہ دارانہ جاگیردار رانہ آئی ایم ایف ورلڈ بنک کے ہاتھوں بک چکا ہے

اس لئے انہی کی ہدایت پر عمل کیا جا رہا ہے کیا امریکہ اور یورپی ممالک میں پنشن یا بیر و زگاری الاؤنس نہیں ملتا کیا میڈیکل اور تعلیمی سہولت کے علاوہ رہائشی سہولیات نہیں ملتی ہیں

اگر ایسا نہیں ہے تو پھرغریب ملک پاکستان کے ملازمین اور ریٹائرڈاور بیوہ کو بھی وہی سہولتیں دی جائیں جو امریکہ اور یورپی ممالک میں ملتی ہیں مزید ایک یہ شرط بھی لگا دی گئی ہے

کہ پچھلی 36 ماہ کی تنخواہ پر پنشن اب پچاس فی صد کے بجائے 25 فی صد پر کموڈیٹکی جائے گئی تو پھر یہ حکمران ججز صاحبان سمیت وزیر اعظم وزیر اعلٰی،سینیٹ کے ممبران کے

ممبران،سینیٹکے سابق اور حاضر چیئرمین ڈیپٹی چئرمین سینیٹ کی لاتعداد سہولتیں بھی ختم کی جائیں ان کی مفت کی رہائش ملازمین کی تعداد اور پیڑول اور گیس بجلی سمیت میڈیکل کی

سہولت ہوائی جہازوں میں فیملیکے ساتھ سفر کرنے سمیت تمام فری چیزیں ختم کر دی جائیں تو شاید ہمیں بھی صبر آجائے گا اور ہم یہ سوچ سکیں گے کہ ملک میں ہر ایک کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا جارہا ہے اور ہمارے ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں