سرکاری سکول دور جدید کی سہولیات سے محروم

کاشف آرائیں/جوسماج افلاس اور جہالت کے دردناک عذاب میں مبتلا ہو وہ زندگی کا کوئی صحت مند خواب نہیں دیکھ سکتا اور شاید اس کا حق بھی نہیں رکھتا ہم بار بار ترقی کا ذکر کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ تعمیروترقی کی باتیں اس قوم کو زیب دیتی ہیں جو معاشی استحکام اور تعلیمی ترقی کے ایک خاص نکتے پر پہنچ چکی ہو کیونکہ تعلیم ہی معاشرے کی تعمیر وترقی کی بنیاد ہوتی ہے اقوام عالم کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی پر غور کریں تو ایک بات ان سب میں مشترک نظر آتی ہے کہ ان ممالک نے سب سے پہلے اپنی ایجوکیشن پرتوجہ دی اور تعلیمی معیار کو بہتر بناتے ہوئے عوام کو تعلیم کے ذرائع شعور دے کرترقی کی جہدوجہد میں شامل کیا جبکہ ہمارے یہاں قوم کوایک طے شدہ پلان کے تحت حقوق غصب کرنے کے لیے اسے ناخواندہ رکھا گیا‘بدقسمتی سے تحریک آزادی کے رہنماو¿ں کے بعد ہی اس ملک میں کرپشن کی بنیاد رکھ دی گئی اور پھر آہستہ آہستہ یہ اژدھا سب کچھ نگل گیا ہر آنے والی حکومت جانے والی حکومت کو مورودالزام ٹھہرا کر بری الذمہ ہوتی رہی اور یہ سلسلہ ھنوز جاری ہے۔73سال ایڈ ہاک ازم کی نذر ہوگئے کسی جمہوری یا فوجی حکومت نے تعلیم کی زبوں حالی اور روبہ زوال نظام پر توجہ نہیں دی نتیجہ کہ آج ہم قومی حیثیت افلاس اور جہالت کے جس نکتے پر کھڑے ہیں وہاں تعمیر وترقی کی منزل اتنی دور ہے کہ اس بارے سوچنا بھی اپنے آپ کو ہمت شکنی اور زبوں ہمتی کے آزار میں مبتلا کرنا ہے تعلیم کی تباہی اور بربادی میں کس کس کا مواخذ ہ کیا جائے کس کس کا نام لیا جائے ان کا جو گیارہ گیارہ سال بلا شرکت غیرے پوری قوت سے اس ملک کے حکمران رہے یا ان جمہوریت پسندوں کا جو کم یا زیادہ اقتدار کی غلام گردشوں کے راہی رہے۔جن کے نزدیک تعمیروترقی کا مفہوم ایک دوسرے کی کرپشن گنوانا اور ان پر لعن طعن کرتے اپنے اقتدار کے دن پورا کرنا ہوتا ہے ان سب کا ایک ہی نصب العین ہے یعنی دولت کھینچنا ان سب کامقصود رہا‘ قوم کی جہالت ہے قوم پڑھ گئی تو حقوق مانگے گی ہماری موجودہ زندگی کے پس منظر میں صرف غلامی ہی کی ایک صدی نہیں سماجی‘اخلاقی‘معاشی اور تعلیمی انحطاط کی بھی کئی صدیاں شامل ہیں۔تعلیم کے لیے رکھا بجٹ ہی تعلیم بارے ہماری سنجیدگی کو عیاں کرنے کو کافی ہے۔اس پر ظلم کہ منظور بجٹ بھی پوری طرح خرچ ہونے کے بجائے خرد برد کر لیا جاتا ہے جس کے باعث سرکاری اسکول دور جدید کی سہولیات سے یکسر محروم ہیں۔بیول ہائر سکینڈری اسکول کی عمارت حکومتوں کی جانب سے تعلیمی شعبے کو بری طرح نظر انداز کرنے کی ایک واضح مثال ہے۔عدم توجہی کے باعث کچھ عرصہ قبل کلاس رومز کی خستہ حال چھتیں زمین بوس ہوگئیں خیر گذری کہ یہ حادثہ شب دیر گئے ہوا خدا نخواستہ اگر یہ اسکول ٹائم میں ہوتا توکتنا بڑا انسانی المیہ ہوسکتا تھا۔دستیاب معلومات کے مطابق بیول کے اس اسکول کی بنیادبطور پرائمری اسکول پاکستان بننے سے لگ بھگ 87سال قبل رکھی گئی۔جسے 1920 میں اپ گریڈ کرتے ہوئے اسے مڈل اسکول کا درجہ دیا گیا۔بعد ازاں اسے 1958میں ہائی اسکول کا درجہ دیا گیا۔جبکہ 2003میں اسے ہائر سکینڈری اسکول کادرجہ تو دے دیا گیا لیکن اس کے لیے سہولیات فراہم نہیں کی جاسکی‘اس وقت بھی اسکول میں بچوں کی تعداد 1075جبکہ اساتذہ کی تعداد 34 ہے۔ہائی سکول حصہ میں اس وقت بیالوجی‘کمسٹری اور جنرل تین پوسٹیں خالی ہیں۔جبکہ ہائر سکینڈری کے طالب علموں کے لیے صرف چارعدد سبجیکٹ اسٹیبلشمنٹ موجود ہیں۔وہاں اس وقت فزکس‘ متھس‘ اسلامیات‘ کمپیوٹر ‘اردو ‘جغرافیہ ‘ایجوکیشن واکنامکس‘ سوشیالوجی سمیت بارہ پوسٹیں خالی ہیں۔جبکہ سکول میں سائنس لیب بھی موجود نہیں ۔عمارت میں ٹوٹل سترہ کمرے ہیں طالب علموں کی تعداد کی نسبت رومز کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔خصوصاً حصہ ہائر سکینڈری میں رومز کی اشد ضرورت ہے۔گراو¿نڈ کا نہ ہونا بھی ایک مسئلٰہ ہے جس کے باعث طالب علموں کی صحت مندانہ سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں ہر حکومت میں ہر منتخب نمائندے نے اس جانب توجہ نہیں دی۔کیونکہ تعلیم کبھی ہمارے سیاست دانوں کی ترجیح نہیں رہی اور اس سوچ کو پروان چڑھانے میں بحثیت قوم ہم سب کا حصہ ہے کہ ہم نے اپنے نمائندوں سے کبھی ایجوکیشن بارے مطالبہ ہی نہیں کیا ہماری ڈیمانڈ ہمیشہ گلی اور نالی ہی رہی اس ذہنیت نے ہماری ایجوکیشن کو تباہی کے دھانے پر لاکھڑا کیا ہے۔اب سوچنا یہ ہے کہ پاکستان کی فاقہ کش‘فلاکت زدہ اور درماندہ قوم کب تک ان مجنونانہ حرکات اور مجرمانہ رجحانات کی متحمل ہوسکتی ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں