شہیدوں اور غازیوں کی سرزمین پٹھوار کے نامور شاعر کامران حشر کا پیدائشی تعلق ضلع راولپنڈی کی تحصیل کلر سیداں کے قریبی گاؤں جسوالہ شریف سے ہے ۔ انہوں نے 24 مارچ 1985ء کو حاجی جاوید اختر کے گھر آنکھ کھولی ۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سرکاری سکول سے ہی حاصل کی اور بعد ازاں بی اے بھی کیا ۔
موصوف کے والد گرامی حاجی جاوید اختر مرحوم و مغفور اپنے گاؤں اور علاقہ بھر میں ایک معروف اور نڈر سیاسی و سماجی شخصیت کے طور پر جانے مانے جاتے تھے ، وہ ایک علم دوست انسان تھے اور اسلامی سوچ رکھتے تھے ، اس لیے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا کامران حشر نہ صرف دنیاوی بلکہ ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کرے ۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ یہ کامران اس قدر کامرانیاں سمیٹے گا کہ بڑا ہو کر ایک اچھا شاعر بھی قرار پائے گا ۔
ملاحظہ فرمائیے کلامِ کامران :
چھوڑی کس نے راہ ہدایت والی
بھٹکا کون ہے کِسدے اشاریاں تے
منکر کون ہے فرقانِ مجید تائیں
مچدا کون ہے لنگر پنڈہاریاں تے
کتھے دین درباری دستور کِسجا
کہڑا انتر ہے منتر سہاریاں تے
اُوکھا کم ہے حشر میدان لہنڑاں
سوکھی گل ہے بہنڑاں کناریاں تے
کامران حشر نے اپنے والد محترم کے حکم کے تحت دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ رضا اسلامیہ کالج راولپنڈی سے عالم فاضل کا کورس بھی کیا ، سجادہ نشین دربار عالیہ حاجی سید اکبر حویلیاں کشمیر ، پیر سید علی رضا بخاری جی کے ہاتھ پر بیعت فرمائی ، انہوں نے اپنے شعری ذوق و شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت کے چوبرگے کے مقبول شاعر محمد جمیل قلندر کی شاگردی اختیار کر لی اور ان کے ساتھ کافی وقت گزارا ۔
کامران حشر اپنے استاد کے ان شاگردوں میں سے ہیں جنہیں محمد جمیل قلندر کی نماز جنازہ پڑھانے کا شرف بھی حاصل ہوا ۔ پٹھوار کے ہر دل عزیز شاعر کامران حشر بزم قلندر و حشر اور حاجی جاوید ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین ، بیورو چیف روزنامہ وطین کلر سیداں ، وائس چیئرمین پٹھواری ادبی فورم اور انفارمیشن سیکرٹری پٹھواری ریسرچ کمیٹی بھی ہیں ۔ پٹھواری اور پنجابی چوبرگے کے چمکتے شاعر کامران حشر کو سفیر ادب ، درویش شاعر ، خوشبوۓ قلندر اور صوفی شاعر ایسے خطابات و القابات سے بھی نوازا گیا ہے ۔
کامران حشر کا چوبرگہ حاضر خدمت ہے پلیز آپ بھی ملاحظہ فرمائیے ۔
پُھٹی شفق تے سُرخی سویر صادق
فجری دو پر فجر سعید ہکو
عید الفطر فطرانہ خلیل یاداں
عیداں دو پر دوہاں دی عید ہکو
الف لام محمد دی آل ساری
نوری دو پر نوروں نوید ہکو
اللہ اللہ بس حشر رسول اللہ
دیدے دو پر دوہاں دی دید ہکو
عہدِ رواں روایتی شاعری کا نہیں رہا بلکہ یہ انقلابی و نظریاتی اور فکری و آفاقی شاعری کا زمانہ ہے ۔ اہل فکر و ادب ، محققین و نقاد نثری اور شعری ادب کو بالعموم ان تین خانوں میں ہی بانٹتے نظر آئے ہیں ، یعنی کہ ادب برائے رجعت ، ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی ۔ میں اپنے پٹھوار کے جوبرگہ گو بھائیوں کو ، کسی ایک کو نہیں بلکہ تمام شاعروں کو یہ دعوت فکر دے رہا ہوں کہ خدارا آپ سبھی آ جائیے ادب برائے زندگی کی جانب کیونکہ اس حوالے سے ہمارے ”پلے ککھ“ بھی نہیں ہے ، ہم بالکل ہی خالی موالی ہیں ۔
مثال کے طور پہ گزشتہ دنوں کے پی کے میں لوئر کرم کے علاقے اوچت میں مسلح افراد نے مسافر گاڑیوں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں 42 افراد اللہ کو پیارے ہو گے متعدد زخمی ہیں ۔ مسلح افراد نے پشاور سے پارا چنار جانے والے کانواۓ میں شامل مسافر گاڑیوں پر خود کار ہتھیاروں سے بے دریغ فائرنگ کی ۔ اس پُر درد سانحہ پارا چنار کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے ۔ اس قدر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے کہ سوچ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ آپ دیکھیں کہ پارا چنار کے شہیدوں کے نام میرے پٹھوار سے ہی اردو ادب کے ایک ماہر شاعر محمد نصیر زندہ نے کیسے اپنے خیالات کو نظم فرمایا ہے :
بارود کی بُو پھول کی تصویر میں ہے
صدیوں کا لہو خواب کی تعبیر میں ہے
پیغمبروں سے کہو کہ واپس آئیں
انسان ابھی ظلم کی زنجیر میں ہے