144

سردیوں کی آمد،گیس لوڈشیڈنگ کا خدشہ

بابر اورنگزیب/سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں گیس لوڈشیڈنگ عروج پر پہنچ جاتی ہے اور عوام مہنگے گیس سلنڈر لینے اور اپنے قیمتی گھروں میں لکڑیاں جلانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اڈیالہ روڈ اور گردونواح میں بھی عرصہ کئی سال سے یہ مسئلہ درپیش ہے یہاں بھی سردیوں کی شروعات کے ساتھ ہی گیس بالکل غائب ہوجاتی ہے جس پر متعدد مرتبہ یہاں کی عوام خصوصاً یہاں کی خواتین نے احتجاج بھی کیے جس پر اس وقت کے ایم این اے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اس مسئلے کو مستقل طور پر حل کروانے کا وعدہ بھی کیا اور اس پر کوشش بھی کی کہ اسکو کیسے حل کیا جاسکتا ہے تو انکو بریفنگ دی گئی کہ گیس لوڈشیڈنگ کا مسئلہ اس وجہ سے آرہا ہے کہ پائپ لائنیں ماضی میں جو پڑی ہیں وہ چھوٹی ہیں اور اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آبادی بڑھ رہی ہے اور وہ پائپ لائنیں اتنی بڑی آبادی کے لیے ناکافی ہیں اس لیے گیس پریشر نہیں ہوتا اور عوام کو یہ مشکل درپیش ہے اب اگر بڑی پائپ لائن بچھائی جائے تو یہ مسئلہ مستقبل طور پر حل ہوسکتا ہے جس پر چوہدری نثار علی خان نے اس پر کام شروع کرنے کا پلان بنایا کچھ حد تک اس پر کام شروع بھی ہوچکا تھا مگر کچھ نامساعد حالات اور مسائل کے سبب ایسا ممکن نہ ہوسکا اور وہ پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہوگیا اس کے بعد انکی گورنمنٹ چلی گئی اور وہ منصوبہ وہی پر رک گیا بلکہ جو پائپ لائن کی بچھائی کے لیے لائے گئے تھے وہ بھی وقت کے ساتھ پڑے پڑے غائب ہوگئے اس کے بعد اب جب موجودہ گورنمنٹ آئی اور اس حلقہ سے غلام سرور خان منتخب ہوئے وہ گیس اور پیٹرولیم کے وزیر منتخب ہوئے تو انکو یہاں کی عوام نے انکی توجہ اس مسئلے کی جانب مرکوز کروائی اور اس مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کیا جس پر انھوں نے اس منصوبے پر کام کرنے کا اعلان کیا اور بڑے پائپوں کی لائن بچھائی کا کام شروع کر دیا جو یقینی طور پر یہاں کے باسیوں کے لیے کسی بھی نعمت سے کم نہ ہے کیونکہ سردی کی آمد کے ساتھ ہی جو مسائل لوگوں کو درپیش آتے وہ ناقابل بیان ہے اب اس منصوبے کو شروع ہوئے سال سے زائد عرصہ ہونے کو ہے اس منصوبہ کے شروع ہوتے وقت عوام کو یہی امید تھی اس دفعہ کی سردیاں سکون سے گزارے گے مگر ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ پائپ لائن بچھائی کا کام انتہائی سست روی کا شکار ہے جسکا خمیازہ یہاں کی عوام اور تاجر بھگت رہے ہیں پائپ لائن کی بچھائی کے لیے سڑک کے اطراف میں کئی کئی فٹ گہرے گڑھے کرین کی مدد سے کھودے گئے ہیں جس سے سڑک کی حالت زار قابل رشک ہوچکی ہے اور سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی جارہی ہے دوسرا ان گھڑوں کے سبب دوکاندار حضرات کا کاروبار تباہ ہوچکا ہے کیونکہ انکی دوکانوں اور پلازوں کے آگے اتنے گہرے گھڑے ڈالے گئے ہیں کہ جسکے سبب کوئی بھی گاہک نہ ہی تو گاڑی پارک کرسکتا ہے اور نہ ہی ان گڑھوں کو عبور کر کے سڑک کے دوسری جانب جا کر خریداری کرسکتا ہے اور ٹھیکدار کی غلفت اور عدم توجہی کے سبب یہ بڑے بڑے گڑھے پائپ ڈالنے کے بعد بھی ایسے ہی کھلے ہوئے ہیں انکو بند نہیں کیا جارہا ہے جس پر آخر کار یہاں کے دوکاندار اب تنگ آکر اپنی اپنی دوکانوں اور پلازوں کے سامنے سے ان کو اپنی مدد آپ کے تحت مٹی سے بھر رہے ہیں کیونکہ کام کرنے والے پائپ ڈالنے کے بعد کئی کئی دنوں تک مٹی نہیں ڈالتے اور غائب رہتے ہیں دوسرا ان گہرے گڑھوں کی وجہ سے تمام مٹی سڑک کے درمیان میں آگئی ہے اور جگہ جگہ پر سڑک کے اطراف میں پڑے پائپوں کی وجہ سے ٹریفک کی روانی بھی بری طرح سے متاثر ہے کئی کئی گھنٹے گاڑی اس ٹریفک میں پھنسی رہتی ہے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور یہ پائپ اور گھڑے حادثات کا سبب بن رہے ہے اکثر لوگ رات کو اندھیرے کے سبب ان گہرے گڑھوں میں گرچکے ہیں اور پائپ سے بھی ٹکرا کر زخمی ہوچکے ہیں مگر ٹھیکدار اس سارے معاملے میں ٹس سے مس نہیں ہورہا بلکہ کام اسی طرح سے سست روی سے جاری رکے ہوا ہے عوام نے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور محکمہ سوئی گیس سے اس پر نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسکا نوٹس لیں اور ٹھیکدار کو ہدایات جاری کرے کہ وہ جلد سے جلد اپنا کام ختم کرے تاکہ عوام سردیوں میں گیس کے ثمر سے مستفید ہوسکے اور آئے روز کی اس پریشانی سے انکو نجات مل سکے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں