سردار علی المعروف سائیں سائل سرکار

؎ایسے ملا کرو کہ لوگ آرزو کریں
ایسے رہا کرو کہ زمانہ مثال دے
مواڑہ کی سرزمین نے بہت سی ایسی شخصیات کو جنم دیا جن کو ہمیشہ ان کے کارہائے نمایاں کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا انہی شخصیات میں ایک تاریخ ساز شخصیت ”سردار علی“ المعروف سائیں سائل سرکار ؒ کی ہے۔ آپ تحصیل کہوٹہ گاؤں مواڑہ کی معروف ڈھوک کھیتر میں 1860عیسوی کو جناب فضل الٰہی ؒکے گھر پیدا ہوئے۔آپ کے والدین کی شرافت کے تذکار عوام و خواص کی زبان پر عام تھے یعنی آپ ایسے ماحول میں پروان چڑھے جہاں اسلام سے وابستگی اور استقامت فی الدین کا درس صبح شام دیا جاتا ہے اور یہی پاکیزہ تربیت انسان کو انسانیت کے سانچے میں ڈھال دیتی ہے۔

فرشتو سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
ابتدائی دینی و دنیوی تعلیم اپنے گاؤں سے ہی حاصل کی ابھی پانچ جماعتیں ہی پڑھی ہوں گی کہ گھر کے حالات کے پیش نظر فوج کی ملازمت اختیار کر لی۔گردش زمانہ کے تقاضے کے مطابق اس کے علاوہ بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں سرگرم رہتے ہوئے محنت و مشقت سے رزق حلال کا اہتمام کرتے رہے۔ آپ بچپن ہی سے شعر و شاعری سے لگاؤ رکھنے کے ساتھ ساتھ سخن شناسی جیسی عظیم دولت سے بھی سرفراز تھے مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ سفر چاہے کوئی بھی ہو استاد کی رہنمائی کے بغیر ادھورا ہوا کرتا ہے لہٰذا آپ نے سہالہ خرد کے معروف صوفی بزرگ سائیں سرشار ؒ کی شاگردی اختیار کی اور بہت کم وقت میں اپنی شاعری کا لوہا منوایاآپ نے حمد‘ نعت‘ شان صحابہ‘شان اہل بیت‘ کربلا‘موت‘مجاز اور اس کے علاوہ درجنوں موضوعات پر مشتمل ہزاروں اشعار رقم فرمائے جو بزمِ شعراء میں جواہرات سے کم نہیں۔صد افسوس کہ آپ کا کلام مستقل کتاب کی صورت میں محفوظ نہ کیا جا سکا حالانکہ مروجہ کتاب جس حجم کی چھپتی ہے اس اعتبار سے تقریباً 20 سے 25 کتابیں چھپوائی جا سکتی تھیں۔بعض معتبر ذرائع سے معلوم ہوا کہ آپ کے کلام پر مشتمل ایک با حجم رجسٹر چوری ہو گیا تھا جو کہ کافی تلاش کے باوجود بھی میسر نہ آ سکا اب بھی ہزاروں اشعار خستہ حال کاغذات پر قدامت کی انگڑائیاں لے رہے ہیں مگر میرے انتہائی محترم ذوالقرنین بھائی آپ جہد مسلسل کر رہے ہیں کہ کم از کم ایک شعری مجموعہ منصہ شہود پہ آجائے تاکہ سخن شناس لوگ سائیں صاحب کے افکارو نظریات سے مستفید ہو سکیں اللہ تعالیٰ ذوالقرنین بھائی کو اس کار خیر پر استقامت عطا فرمائے۔
مجھ پہ تحقیق میرے بعد کرے گی دنیا
مجھ کو سمجھیں گے میرے بعد زمانے والے
آپ کے شاگردوں میں زرداد بسمل مرحوم جیسے بلند مرتبہ شعراء سر فہرست ہیں۔آپ کی شاعری میں حقیقت، خودداری اور عجز و انکساری کا درس نمایاں ہے اور آپ نے ہمیشہ با مقصد شاعری کو سپرد قرطاس کیا یعنی ایسی شاعری جو انسانیت کو راہنمائی کا سامان مہیا کرے نہ کہ وہ شاعری جو روایتی شعراء کی طرح وقت گزاری کا سامان ہوا کرتی ہے۔سائیں احمد علی ایرانی ؒ کے ساتھ آپ کے بہت گہرے مراسم تھے جن کا اندازہ ان خطوط کو پڑھنے کے بعد ہو جاتا ہے جن میں ہر دو شخصیات کا تبادلہ خیال مرقوم ہے۔ وہ خطوط آج بھی محفوظ ہیں اگر ممکن ہوا تو ان کو بھی شعری مجموعہ کا حصہ بنایا جائے گا تاکہ قارئین اپنے اسلاف کی فکر کا بخوبی مشاہدہ کر سکیں کہ وہ لوگ کس انداز میں دامن ادب کو تھامتے ہوئے علمی ابحاث پرتبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔آپ نے ساری زندگی خودداری اور امانت داری کا پیکر بن کر گزاری جس کی مثال آج بھی دی جاتی ہے اور انشاء اللہ قیامت تک دی جاتی رہے گی کیونکہ ایسی شخصیات کی محبت اللہ تعالیٰ مخلوق کے دلوں میں راسخ فرما دیتا ہے گویا ایسے لوگ پاکیزہ تزکار کیساتھ ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔


غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا آپ عمر کے آخری حصے میں کافی علیل رہے اور 25 اگست 1952 عیسوی کو خالق حقیقی سے جا ملے آپ کی قبر مواڑہ کے”بڑا باوا“نامی مشہور قبرستان میں مین روڈ بگلہ کے کنارے واقع ہے۔ آپکے کلام میں سے دو چوبرگے پیش خدمت ہیں
نزع دے وقت جب جان نکلے
تیری ذات دا دل میں دھیان ہووے
اللہ اللہ سب پڑھن اندام میرے
کلمہ نبیؐ دا وِرد زبان ہووے
ہووے دید اُس وقت نصیب تیرا
میرانہ ایمان نُقصان ہووے
سائل عاجز پر فضل کر آپ سائیاں
میرا خاتمہ با ایمان ہووے
نت تو میر ے مزارآویں
اک دن نہ کرکے قضالنگھیاں
مرض ہجر تھیں لاش بربادہوسی
اس مرض تھیں دیکے شفا لنگھیاں
سہکدا روح ہوسی انتظار یوں میں
عاجز خادم نوں آپ بخشا لنگھیاں
ربا فضل کرسائل مسکین اتے
پڑھ کے دل تھیں اے دعا لنگھیاں
اللہ سائیں صاحب ؒکی قبر پر اپنی رحمتوں کا نزول فرماتے ہوئے آپکے درجات کو بلند فرمائے آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں