سب راستے قبرستان کی طرف جاتے ہیں

امّاں کہتی ہیں کے ربّ تعالیٰ سے انصاف کبھی مت مانگیں۔ انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے والی ہستی کا نام اللہ ہے۔ لہذا آج کا گنہگار انسان جب اس ذات سے انصاف طلب کرے گا تو سوائے سزا کے اس کو اور کچھ نہ مل پائے گاماسوائے چند افراد کے۔ امّاں فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل و کرم اور رحم کی التجا کیا کریں۔ ہمارے پاس ایسے کوئی اعمال نہیں ہیں کہ جس کی بنا پر اللہ انصاف کرے اور ہم کامیاب ہو جائیں۔ انسان اذّل سے خطا کا پُتلا ہے لہذا اگر انسانوں کے ساتھ کسی نے بہتر کیا ہو گا تو دینی معاملات میں وہ کمزور ہو گا۔ اور اگر دینی معاملات میں بہتر ہے تو دُنیاوی معاملات میں کمزور ہو گا لہذاانصاف کا ترازو اس کے حق میں کم ہی آئے گا۔ دُنیا کے بہت سے گنہگار انسان اخروی دُنیا میں جنت میں تشریف فرما ہوں گے کیونکہ وہ خطاؤں پر خطائیں کیئے جاتے تھے مگر ربّ سے جب بھی مانگتے اور گڑ گڑا کر یہ کہتے کہ اے سب جہانوں کے مالک اور سب ذی روح کو تخلیق کرنے والے ربّ ہمارے پاس نیکیاں نہ ہونے کے برابر ہیں لہذا اپنے فضل و کرم اور رحم سے ہماری بخشش فرما دے۔ ربّ کی ذات جب اس گنہگار انسان کا یہ اعتماد دیکھتی ہے تو وہ اپنے فضل کے خزانے اس پر لُٹا دیتی ہے۔ جب کوئی اس سے انصاف طلب کرتا ہے تو وہ پھر پاؤں کے نیچے آکر کچل جانے والی اور مر جانے والی چیونٹی کا حساب بھی وہ لے کرہی رہتا ہے۔ وہ ربّ قمیض کے ساتھ لگے دو فالتو بٹن کا حساب بھی لے گا اور پھر پوچھے گا کہ اگرتمہارے پاس دس جوڑے تھے تو اُن سب میں فالتو بٹن کی مالیت اگر کسی غریب پڑوسی کو دے دیتا تووہ ایک وقت کا کھانا کھا سکتا تھا۔ کیا پتہ ہمارے ان افعال سے کتنے غریب دوائی نہ ہونے یا روٹی میسرنہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہوں گے۔ میرا ربّ جب حساب لینے پر آتا ہے تو وہ سردیوں میں چار یا چھ یا دس سویٹر اور کوٹ کے بارے میں حساب ضرور لے گا۔ اور پھر ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہو گا۔ کیونکہ جب سردی کی وجہ سے کوئی تکلیف میں ہوتا ہے تو وہ تکلیف ہم جیسے امیروں کے گناہوں میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔ ایسے ہی اگر کوئی شخص گرمیوں میں گرمی کی وجہ سے فوت ہو جاتا ہے یا مسلسل تکالیف میں رہتا ہے تو وہ تکالیف ہمارے گناہوں میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔ اگر کسی آدمی کے گھر میں اے سی لگے ہوئے ہیں اور جہاں اُنہیں ایک پنکھے کی ضرورت ہے وہاں دو پنکھے لٹک رہے ہیں۔ اور دوسری جانب کوئی غریب جون اور جولائی کی گرمی میں تڑپ تڑپ کر مر گیا تو اُس کے بعد کوئی راستہ ہمیں جہنم جانے سے روک نہ پائے گا۔ اے لوگو سُن لو تمام راستے قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔ ہم سب جن کپڑوں میں فوت ہوں گے تو ایک سوال اُنہی کے بارے میں پوچھا جائے کا کہ اتنے مہنگے کپڑے کہاں سے اور کیوں خریدے۔ جبکہ ہمارے ارد گرد کروڑوں انسان رات کو سونے سے پہلے اپنے کپڑے دھوتے ہیں تا کہ صبح وہی کپڑے پہن کر مزدوری کے لیئے جا سکیں۔ اتنے بڑے بڑے گناہوں کے بعد ہم اللہ سے انصاف کے تقاضے کریں توبتائیں انصاف کی چکی کدھر کو جائے گی؟ یہ وہ سوال ہے جو ہم سب نے خود سے پوچھنا ہے۔ اور جواب سینہ تان کرسامنے کھڑا ہوجائے گا اور ہماری گردنیں شرم کی وجہ سے جھک جائیں گی۔ میرے ادارے میں ایک خاتون آئی اور کہنے لگی کہ مجھے ایک سلائی مشین اگر مل جائے تو میں اپنے بچوں کی پرورش بڑے اچھے طریقے سے کر سکوں کیوں کہ مجھے یہ ہُنر آتا ہے۔ میں نے پوچھا کب سے آپ کے پاس مشین نہیں ہے تو کہنے لگی 6برس قبل مالی
حالات کی وجہ سے مشین بیچنی پڑی اور آج تک نہ خرید سکی۔اس کا یہ جملہ سُن کر مجھے کرنٹ سا لگ گیا۔مجھے تو اُس کے حالات اس دن معلوم ہوئے مگر اسکے بھائی، اس کی بہنیں اور اس کے رشتہ دار اور محلے داروں کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کھانے کے ایک نوالے کو ترس رہی ہے نہ جانے کب سے؟ اب جو افراد اس کی غربت کے ذمہ دار ہیں وہ بھی سن لیں کے ربّ کے انصاف کے مطابق وہ جہنم کے مسافر بن چکے ہیں اور اگر وہ فضل کرنے پر آئے تو اس ربّ کی رحمت بے بہا ہے۔ ایک بات طے ہے کہ ربّ ہر جگہ اور ہر کسی کے لیئے فضل یا رحم نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس نے دُنیا کو یہ پیغام دینا ہے کہ جیسے اعمال ویسا صلہ۔ لہذا ہمیں اپنے گُناہوں اور کوتاہیوں پر شرمندہ ہونا ہو گا اور ربّ سے معافی طلب کر کے آئیندہ آنے والی زندگی دوسروں کے لیئے گزارنا ہو گی۔ ورنہ ربّ کی ذات ہر بار شب برات تک جانے کی مہلت نہیں دیتی کہ جب ہم ایک ہی رات سب سے معافی طلب کر رہے ہوتے ہیں۔ امّاں کی بات سُن کر میں آج تک سکتے میں ہوں اوراوپر بیان کردہ سارے گناہ اگر ہمارے حصے میں ہیں پھر بھی میرا ربّ اتنا رحیم و کریم ہے کہ اس کے ایک کُن سے تمام گناہ دھل سکتے ہیں۔ بشرطیکہ کہ ہم سچے دل سے توبہ کریں اور آنے والی ساری زندگی یہ سوچ کر گزاریں کہ یہ سانسیں جو آ اور جا رہی ہیں ہو سکتا ہے یہ آخری سانس ہو۔ شکریہ امّاں جی آپ نے میرے کردار کو تباہ ہونے سے بچالیا۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ایسی مائیں سب کو نصیب فرمائے۔آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں