سایہ /چوہدری عبدالجبار

سایہ کا لفظی مطلب پرچھائیں ‘ہرتو اور عکس کے ہیں۔مگر عمومی طور پر حفاظت ‘سرپرستی‘حمائیت ‘صحبت کا اثر‘آسیب اور جن بھوت کا اثر کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔سایہ ہمارے ساتھ ہر وقت رہتا ہے

کبھی ظاہر اور کبھی پوشیدہ۔دنیا میں آمد والدین کے سایہ میں پرورش اور بہن ‘بھائیوں اور عزیز رشتہ داروں میں رہنے کا عمل سایہ کے مانند ہی ہوتا ہے۔اور جب بندہ ان چیزوں سے محروم ہوتا ہے تو اسے تنہائی کا احساس ہوتا ہے اسی لئے ایک شاعر نے کہا ہے……
سایہ بھی ساتھ جب چھوڑجائے ایسی ہے تنہائی۔
بچے کی پیدائش کے وقت اگر اس کی ماں ساتھ چھوڑ جائے یا باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جائے کہا جاتا ہے کہ یہ سایہ عاطفت سے محروم ہو گیا ۔ساری زندگی سائے کی طرح ساتھ رہنے والے بہن بھائی کبھی کبھار ایک دوسرے کے جنازے کو کندھا بھی نہیں دے سکتے۔

میرے ایک دوست جو ہمیشہ بیرون ملک رہے جب پاکستان آتے ان کے ساتھ ان کے بہن بھائی سائے کی طرح جڑے رہتے تھے بلآخر عمر کے آخری حصہ میں ان کو بھی جدائی کا غم سہنا پڑا۔
تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مسلم بن عقیلؓواقعہ کربلا سے قبل وہاں کے حالات دریافت کرنے کوفہ گئے اور ایک ایک کر کے سب ساتھ چھوڑ گئے تواس وقت کوفہ کے لوگ اپنی دیوار کے سایہ میں بھی آپ کو کھڑا نہیں ہونے دیتے کہ ان پر آپ کی حمائیت کا الزام نہ آجائے۔مسافر جب تھک ہار جاتا ہے

اور منزل بھی ابھی دور ہو تو درخت کے سایہ میں ہی میں پناہ لیتا ہے۔یہی سایہ اس کا غم خوار بنتا ہے ۔استاد کا سایہ ہی اسے علم و عمل کا رستہ دکھاتا ہے اور اندھیرے سے روشنی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔دوست کا سایہ اسے بڑے سے بڑے غم سے نکلنے میں مدد دیتا ہے جو بات کسی سے بھی نہ کر سکے وہ دوست کے ساتھ کر کے اپنے بوجھ کو ہلکا کر سکتا ہے۔سب سے بڑھ کر ولی کامل کا سایہ (صحبت)کا اثر اسے اخروی کامیابی کے ذینے طے کراتا ہے۔اس کے توشہ آخرت میں نیکیوں کے انبار اس بدولت ہی ممکن ہوتے ہیں۔


ایک دفعہ ایک بڑھیا سامان کی گٹھڑی اٹھائے عاذم سفر تھی گٹھڑی کے بوجھ کی وجہ سے سفر ممکن نہ تھا وہ اس کو رکھ کر اضطرابی کیفیت میں تھی کہ ہمارے پیارے نبیﷺ کا گزر ہوا آپ نے استفسار فرمایا‘بڑھیا نے کہا کہ میں اپنے باپ دادا کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتی‘یہاں ایک جادوگر آئے ہیں جن کو دیکھتے ہی لوگ ان کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اور ایمان لے آتے ہیں میں اسی لئے دور جا رہی ہوں تاکہ محفوظ رہوں۔آپ ﷺ نے اس کا بوجھ اٹھایا اور جہاں تک اس نے جانا تھااسے وہاں تک چھوڑا۔بڑھیا نے شکریہ کے ساتھ کہا کہ تم اتنے اچھے ہو اپنا نام تو بتا جاؤ۔آپﷺ نے فرمایا کہ آپ جس سے بھاگ کر یہاں تک پہنچی ہیں وہ تو میں ہی ہوں اور میرا نام ہے محمدﷺ رسول اللہ ہے۔بس بڑھیا اسی وقت کلمہ پڑھ کر ایمان لے آئی

۔
یہاں تک تو بات ہوئی حقیقی سایہ کیااور ایک سایہ جو ہمارے ہاں مشہور ہے کہ اس پر آسیب یا جن بھوت کا سایہ ہو گیا ہے ۔جن بھوت کے سایہ مین حقیقت کا عمل دخل ہے۔درخت کے سایہ میں رفع حاجت سے اس لئے منع کیا گیا ہے کہ وہاں ان چیزوں کا بسیرا ہوتا ہے ۔پھر راکھ جہاں ہو وہاں بھی احتیاط کی ضرورت ہے اور جہاں گوبر وغیرہ ہو ان جگہوں سے بھی بچنا چاہیے۔کچھ لوگ بیماری کا شکار ہوتے ہیں ۔بچپن میں بڑا بخار (ٹائیفائیڈ)مرگی کا مریض عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مختلف عوارض کا شکار ہو سکتا ہے

اور ان کا طب کے ذریعے ہی علاج ممکن ہو سکتا ہے۔بہت سی بیماریوں کو آسیب کے ساتھ ملا دینے کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں اور ان کے علاج کے لئے بہت سے عامل پیدا ہو چکے ہیں جنہوں نے اپنی فیسیں ہزاروں اور لاکھوں میں رکھی ہوئی ہیں اور وہ لوگوں کے علاج کے بہانے مالی‘ذہنی یہاں تک کہ جسمانی نقصان بھی پہنچا رہے ہیں۔بہت سے گھریلو مسائل جو سرا سر ہماری اپنی ناقص منصوبہ بندی‘بد اعتمادی ‘بد دیانتی اوربد عملی کی پیداوار ہوتے ہیں ان مسائل کے خاطر خواہ حل کے لئے بھی جعلی عاملوں اور تعویز گنڈے والوں کے پاس چلے آتے ہیں

اور وہ بھی شخصی کمزوریوں کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہر طرح کا نقصان پہنچاتے ہیں۔ایک ساس بہو سے اچھا طرز عمل اختیار کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو وہ بھی اس کے حل کے لئے ان نام نہاد عاملوں کا رخ کرتی ہے اور جب ایک خاوند اور بیوی کے درمیان بد اعتمادی پیدا ہوتی ہے تہ وہ بھی یہی طریقہ اختیار کرتی ہے۔ہمیں اپنے آپ پر نظر ثانی کی ضرورت ہوتی ہے اور خود احتسابی کے ذریعے ہم ان خرافات سے بچ سکتے ہیں۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں