ساگری تہرے قتل کی واردات نے عوام کو لرزا کر رکھ دیا

آصف شاہ
پنڈی پوسٹ ڈاٹ پی کے‘روات

تھانہ روات کی یونین کونسل ساگری کے علاقہ جھمٹ مغلاں میں تہرے قتل کی واردات نے پورے علاقے میں خوف و ہراس پھیلا دیا ہے شواہد کے مطابق قتل کی یہ واردات جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب کو ہوئی جھمٹ مغلاں کی رہائشی 30سالہ ناصرہ اس کی والدہ منیرہ بی بی اور اور ناصرہ کی تقریبا 7سالہ بیٹی مسکان ایک ہی گھر میں مقیم تھیں سات دن تک گھر میں کوئی آمد ورفت نہ ہونے پر ہونے سہیلی نے روات پولیس کو اطلاع کی جس پرمقتولین کی لاشیں ان کے گھر سے برآمد ہوئی جس سے علاقہ میں رنج وغم کی فضا چھا گئی لاشوں کی حالت انتہائی خراب تھی چھبیس سالہ مقتولہ ناصرہ کی پہلی شادی سات سال قبل اپنے کزن اور پھوپی زاد عمران سے ہوئی تھی اور دونوں ہنسی خوشی سے رہتے تھے خاوند عمران کیری سوزوکی چلا کر زندگی کا پہیہ چلارہا تھا لیکن اچھے مستقبل کے خاطر دونوں میاں بیوی نے مشورہ کیا جس پر خاوند کو روز گار کے مسلے کو حل کرنے کیلئے ناصرہ نے اپنا زیور بیچ کر اپنے پہلے شوہر کو بیرون ملک بیج دیا جہاں اس کی آنکھوں نے سہانے مستقبل کے خواب دیکھنے شروع کر دیے بیرون ملک جانے کے بعد عمران کا اپنے گھر رابطہ رہا لیکن اس کے والد عمان حسین سعودیہ بسلسلہ روز گار مقیم تھے وہاں ان کا ایکسیڈینٹ ہونے سے ان کی موت واقع ہوگئی تھی جس سے اس کی والدہ کی زہنی حالت خراب ہوگئی اور آج بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ رحیم آباد راولپنڈی میں مقیم ہے دوسری طرف عمران کا آہستہ آہستہ اس کا گھر والوں سے رابطہ کم ہوگیا اور وہ یورپ کی رنگینیوں میں کھو گیا اور ادھر گھر میں روٹی روزی کا سلسلہ چلانے والا کیری ڈبہ بھی نامعلوم چور لے اڑے دوسری طرف عمران کا بھی گھرسے رابطہ بالکل ہی منقطع ہو گیا ناصرہ نے کافی انتظار کیا جب خاوند کی جانب سے کوئی مثبت رسپانس نہ ملنے پر خلع کا دعوی دائر کر دیا اس کے ساتھ ہی اس نے بیوٹی پارلر کا کام بھی سیکھنا شروع کر دیا عمران سے شادی کے بعد ناصرہ کے ہاں ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی جسکا نام انہوں نے مسکان رکھا اسی دوران ناصرہ نے روات میں ایک بیوٹی پارلر کرائے پر لیکر کام شروع کر دیا اور گھر کے لیے روٹی روزی کا سلسلہ شروع ہو گیا عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہ جب کام پر جاتی تو توپ سٹاپ سے ساگری موڑ تک اگر گاڑی میسر نہ ہوتی تو وہ پیدل چلنے کوترجیح دیتی لیکن کبھی اور گاڑی میں سوار نہ ہوئی لیکن ماحول نے ایسا تبدیل کیا کہ اس کے مانگا کے رہائشی ساجد سے کسی طرح اس کی علیک سلیک ہوگی جو ان کی خفیہ شادی پر جا کر ختم ہوئی لیکن ساجد کا والد اس کی اس شادی سے خوش نہ تھا جس کی وجہ سے ساجد اپنی دولہن نا صرہ کی ڈولی گھر نہ لا سکااور وہ جھمٹ اپنی ماں کے پاس ہی رہنے لگی ان کا نکاح کا اندراج راولپنڈی کی ایک یوسی میں ہوا تھا لیکن مقتولہ ناصرہ کی دوسری طرف یہ شادی بھی کچھ زیادہ عرصہ نہ چل سکی اور ساجد کے گھریلو رائع کے مطابق کچھ عرصہ پہلے ان کے درمیان طلاق ہوگئی ہے اوران کا کیس متعلقہ یونین کونسل کی ثالثی کونسل میں چل رہا تھا اور اس میں مقتولہ نے ساجد کے خلاف درخواست دے رکھی تھی کہ ساجد نے اس کے زیورات اور کچھ رقم واپس نہ کی ہے پہلے ان کی اہل محلہ کا کہنا ہے کہ اس خفیہ نکاح کا پتہ بھی انہیں اس دن چلا جب تہرے قتل کا واقعہ رونماہوا اور پولیس نے تلاشی کے دوران متوفیہ کے پرس سے کچھ چیزیں نکالی گئی تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی ،کہ ان کا نکاح ہو چکا ہے اب دوسری طرف اس واقع پر نظر ڈالتے ہیں ناصرہ کے ساتھ پارلر میں کام کرنے والی ہرکہ کی رہائشی نے ناصرہ کے گھر کا رخ کیا تو دروازے پر تالہ لگا ہوا تھا جس پر وہ واپس چلی گئی اگلے دن وہ دوبارہ آئی تو اس نے اہل محلہ کو بتایا جس پر کونسلر گڈو نے تھانہ روات کو اطلاع دی اور ساتھ ہی چیئرمین یوسی راجہ شہزاد یونس کو بھی موقع پر بلایا گیا جس پر ان کی موجودگی میں تالہ توڑا گیا تو اندر ایک عجیب منظر ان کا منتظر تھا سامنے والے بیڈ پر ناصرہ کی لاش پڑی ہوئی تھی اور اس سے بدبو اٹھ رہی تھی جس سے یہ پتہ چلا کہ یہ کافی دنوں کا کیس ہے اس کے بعد سٹور کا دروازہ کھولا گیا تو معصوم مسکان کے پاوں بستروں سے باہر نظر آرہے تھے جس سے اس کی اور اس کی نانی کی لاشیں برآمد کر لی گئی لاشوں کی حالت انتہائی خراب ہو چکی تھی ،یہ خبر یورے علاقہ میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور ایس اییچ او روات کے ساتھ ساتھ ڈی ایس پی سلیم خٹک بھی پہنچ گے اور انہوں نے فی الفور فرانزک ٹیم کو شواہد اکھٹے کرنے کے لیے بلا لیا ٹیم نے موقع پر موجود تمام شواہد کو اکھٹا کیا اس کے بعد لاشوں کو پوسٹمارٹم کے لیے بھجوادیا لاشوں کی حالت کافی خراب ہونے کے باوجود اگلے دن صبح سویرے جب تینوں ماں بیٹیوں کے جنازے اٹھے تو کہرام مچ درد دل رکھنے والی ہر آنکھ اشکبار تھی موت تو برحق ہے لیکن سفاک قاتل نے جس بے رحمی سے پورے خاندان کو قتل کیا اور بالخصوص معصوم مسکان کے قتل پر علاقہ کی عوام میں غم غصہ کی کیفیت پائی جاتی ہے عوام علاقہ دبے دبے لفظوں میں اس کا اظہار بھی کرتے نظر آتے ہیں ادھر اب تک پولیس نے مقتولہ کے دوسرے شوہر ساجد کو تفتیش میں شامل کر لیا حالات کس ڈگر جاتے ہیں اور بے رحم قاتل کب قانون کے شکنجے میں آتا ہے اور پولیس اس کیس کو کس طرح حل کرتی ہے ہر فرد کی نظریں اسی طرف لگی ہوئی ہیں ،یہ کیس تھانہ روات کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے پولیس زرائع کے مطابق انہوں نے اپنا تفتیشی دائرہ کار کو بڑھا دیا ہے یہ ایسا کیس ہے جو ہر زبان زد عام ہے اور عوام علاقہ قاتلوں اور بالخصوص ننھی مسکان کے قتل کو نہیں بھلا پارہے ہیں مسکان کے ساتھ سکول میں پڑھنے والے بچے اور اس کو پڑھانے والی اساتذہ بھی اس کے نام پر آبدیدہ ہوجا تی ہیں ننھی مسکان خوبصورت آواز میں نعت پرھتی تھی امید ہے کہ نبیﷺ کا نام لینے والی اس {jcomments on}بچی کے قاتل جلد یا بدیر قانون کے شکنجے میں ہوں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں