عبدالخطیب چودھری ایڈیٹر پنڈی پوسٹ
ساون کی جری سے موسم نے انگڑائی لی تو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں صوبائی وزیر تعلیم کی جانب سے دی جانے والی بے معانی چھٹیوں اور اس کے باعث بچوں کے تعلیمی نقصان پر دوست چوہدری اشفاق سے گفتگو جاری تھی۔ رجم جھم کی بوندوں سے فرنٹ سیشہ شبنم کا منظر پیش کر رہا تھا اور ویپر وقفے وقفے سے اپنا کام سرانجام دے رہا تھا۔ بازار میں پیدل چلنے والے گندگی کی چھینٹوں سے بچنے کے لیے شلواروں کے پائنچے سمیٹتے اور دکانوں کے شیڈز کی آڑ لینے کی کوشش کر رہے تھے۔
اسی دوران موبائل فون کی گھنٹی مسلسل بجتی رہی۔ کلرسیداں بازار کی بے ہنگم ٹریفک میں نہ گاڑی روکنا ممکن تھا اور نہ ہی ٹریفک وارڈنز کے چالان کے خوف کے باعث فون اٹینڈ کرنا۔ تاہم پارکنگ ملی تو کال ریسیو کی۔ کانوں میں جانی پہچانی آواز ابھری:
“خطیب چوہدری! آپ کہاں ہمارے بازار کا چکر لگا رہے ہیں؟ میں نے ابھی آپ کو کراس کرتے دیکھا، مسلسل کالز کر رہا ہوں لیکن آپ اٹینڈ نہیں کر رہے۔ خواہش ہے کہ ایک کپ چائے ہو جائے۔”
فون کی سکرین پر نظر دوڑائی تو نام جگمگا رہا تھا: پوٹھوہاری زبان کے معروف براڈکاسٹر، شاعر، ادیب اور مصنف محمد عظمت مغل۔ ان کی جانب سے چائے کی پیشکش میرے لیے باعثِ اعزاز تھی۔ مصروفیت اور وقت کی کمی کے باوجود میں نے لبیک کہا اور قریبی ہوٹل پر مل بیٹھنے کا طے پایا۔
کلرسیداں کی سڑکوں پر موٹرسائیکلوں کی بھرمار اور شہتربے مہار ڈرائیوروں سے بچتے ہوئے ہوٹل پہنچا تو عظمت مغل بھی آ موجود ہوئے۔ گرمجوشی سے خوش آمدید کہا اور ہم اندر داخل ہوئے۔ برآمدے میں قدم رکھا تو سامنے ہی معروف صحافی اور پریس کلب کے صدر ثاقب شبیر ثانی پراٹھے کے ساتھ چائے نوش کر رہے تھے۔ انہیں ڈسٹرب کیے بغیر قریب ہی ایک میز پر بیٹھ گئے۔ کندھے پر کپڑا ڈالے ویٹر نے روایتی انداز میں میز صاف کی اور پانی پیش کیا۔
عظمت مغل نے گفتگو کا آغاز پنڈی پوسٹ کے کردار کی تعریف سے کیا اور کہا کہ یہ ہفت روزہ اب پوٹھوہار کی پہچان بنتا جا رہا ہے۔ یہ الفاظ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھے۔ تھوڑی دیر میں چوہدری اشفاق اور ثاقب شانی بھی محفل کا حصہ بن گئے اور بیٹھک کی رونق بڑھ گئی۔
پوٹھوہار کی دودھ پتی چائے ایک سوغات سمجھی جاتی ہے۔ عظمت مغل نے ویٹر کو اپنے مخصوص پوٹھوہاری انداز میں جلدی چائے تیار کرنے کا کہا—یوں لگا جیسے ریڈیو پاکستان راولپنڈی کا ان کا مشہور پروگرام جہمور نی آواز کانوں میں گونج رہا ہو۔
چائے آنے تک پوٹھوہاری زبان، ثقافت اور تاریخ پر گفتگو جاری رہی۔ عظمت مغل گزشتہ تین دہائیوں سے اس خطے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ان کی کتاب “اَکھیاں نیں بوہے” پوٹھوہاری شاعری اور بیت پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب نہ صرف محبت اور دیہی زندگی کی جھلک پیش کرتی ہے بلکہ اسلوب کی سادگی اور اثر پذیری کے باعث قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔ اس پر کئی معروف ادبی شخصیات نے تبصرے کیے ہیں۔ عظمت مغل مزید تین کتابوں پر بھی کام کر رہے ہیں۔
ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن پر ان کے پروگراموں نے پوٹھوہاری ثقافت کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ بلاشبہ پوٹھوہاری زبان اور ادب کے سفیر ہیں۔ گفتگو کے دوران انہوں نے پوٹھوہار میں صحافت کے کردار پر سیمینار کروانے کی تجویز بھی پیش کی، جسے میں نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کروائی۔
یہ مختصر مگر یادگار نشست تھی۔ نہ صرف پوٹھوہاری ادب و ثقافت پر سیر حاصل گفتگو ہوئی بلکہ تعلیم اور علاقائی صحافت جیسے اہم موضوعات بھی زیر بحث آئے۔ جاتے ہوئے ایک احساس دل میں گونج رہا تھا:
“یار زندہ صحبت باقی۔”
عظمت مغل کی عزت افزائی، خلوص اور دودھ پتی کی چسکیاں دیر تک یاد رہیں گی۔
اسلام آباد(اویس الحق سے)ضلع راولپنڈی و مری کی مشہور و معروف سماجی شخصیت بانی و…
مری(اویس الحق سے)راولپنڈی،مری،کشمیر ہائی وے(آر،ایم،کے)روڈ جسے جی ٹی روڈ بھی کہا جاتا ہے بروری سے…
مری(اویس الحق سے)ڈپٹی کمشنر مری آغا ظہیر عباس شیرازی کی خصوصی ہدایات پر ڈینگی سے…
دینہ کے نواحی علاقے سید حسین نالہ میں ایک دل خراش سانحہ پیش آیا، جہاں…
اسلام آباد (حماد چوہدری) تھانہ ہمک کی حدود میں آج ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا،…
آصف شاہپاکستان میں پولیس مقابلے اکثر میڈیا کی وجہ سے عوامی توجہ کا مرکز بن…