سانحہ 9مئی پاکستان کی سالمیت کے خلاف سازش

پاکستان کی75 سالہ تاریخ میں 9مئی ایک تاریک ترین دن تھا جب ایک سیاسی جماعت کے کارکنان نے اپنے رہنما کی گرفتاری پر پاکستان کی فوجی املاک،کورکمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس)،جی ایچ کیو،آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر،موٹروے ٹول پلازہ،میٹرو اسٹیشن،پولیس کی گاڑیاں یہاں تک کہ حملہ آوروں کو کسی بھی ناگہانی صورتحال سے بچانے کے لیے آنے والی ریسکیوکی ایمبولینسوں کو بھی نذرآتش کر دیا ایم ایم عالم کے جہاز،شہید کی یادگاروں کی بے حرمتی کی گئی جو کہ ہرذی شعور پاکستانی کے لیے افسوسناک واقعہ تھا کوئی بھی محب وطن خواہ اس کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہے اس کی مزمت کرتا ہوا دکھائی دیا سب سے پہلے تو آپ کو یقین کرنا ہوگا کہ اس سانحے کا تعلق عمران خان کی گرفتاری سے تھا اور پھر یہ کہ اس سارے معاملات کے پس پردہ سی پیک مخالف قوتیں ہیں جب سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر چین کے دورے سے واپس آئے ہیں ہندوستان اسرائیل اور امریکہ کو کانٹے کی طرح چھپ رہے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ یہ تینوں ممالک کبھی بھی پاکستان پر جنگ کی صورت میں حملہ آور نہیں ہوں گے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان اور چین تعلقات اور سی پیک کو لاوارث چھوڑ دیں گے پاکستان میں ایک سہولت ہر وطن دشمن کے لیے موجود ہے کہ بہت کم پیسوں میں انہیں کرائے کے دہشت گرد پاکستانی مارکیٹ سے میسر آجاتے ہیں ممکن ہے کہ تحریک انصاف کی کارروائیوں کے پیچھے یہی طاقتیں کارفرماہوں جن حساس مقامات پر حملے کئے گئے یہاں پر تو ہندوستان کے کمانڈوز بھی داخل ہونے کی جرات نہیں کر سکتے تو پھر یہ لوگ وہاں کیسے چلے گئے خیال یہی ہے کہ یہ خود نہیں گئے بلکہ انہیں بھیجا گیا ہے اور بلاشبہ یہ تمام کارروائیاں کسی نہ کسی لیڈر یا منظم گروہ کے اندر کمان ہوئی ہیں ذرائع بتاتے ہیں کہ ان حملہ آوروں میں اکثریت افغان باشندوں کی تھی جنہیں خان صاحب نے قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے بے پناہ دے رکھی تھی کیونکہ یہ کارروائی جس روانی سے چلتی رہی اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ حملہ آور عام لوگ نہیں تھے بلکہ تربیت یافتہ لوگ تھے حکومت کو اس سلسلے میں بہت سخت اقدامات کرنے ہوں گے اور اس کی ابتدائی ہنگامی بنیادوں پر کر دی جائے تو یقینا ایسے واقعات دوبارہ کبھی رونما نہیں ہوں گے راولپنڈی سازش جیسے کیسوں کو سامنے رکھاجائے تو ریاست کے خلاف 9مئی کی ساز ش کوئی نئی سازش نہیں لگتی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے پس پردہ عوامل میں ایسے کرداروں کا عمل دخل واضح نظر آتا ہے وقت جن کے روابط بیرون ملک پاکستان دشمن قوتوں سے بالآخر جوڑ دے گا حیرت کی بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی مشتمل ہجوم برٹی چوک سے آٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے کینٹ میں واقع جناح ہاؤس یعنی کورکمانڈر ہاؤس پہنچتا ہے راستے میں اتنے پلازے اتنی دکانیں اتنے ریسٹوران اور اتنے گھرواقع ہیں مگر شرپسند کسی ایک پلازے کسی ایک دکان کسی ایک ریسٹوران یا کسی ایک گھر کو تہو بالا نہیں کرتے مگر جونہی جناح ہاؤس پہنچتے ہیں ہر شے تہس نہس کر دیتے ہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے ریاست کی طاقت کے سامنے عوام کی طاقت کو کھڑا کر دیا گیا ہے یعنی عوام کو ریاست سے لڑوادیا گیا ہے ایک ایسے وقت میں جب لوگ ریاست پر حملہ آور ہوئے تو میڈیا اور عدلیہ خاموش تماشائی بنے رہے مگر جونہی ریاست نے عوام کی سرکوپی شروع کی تو میڈیا اور عدلیہ سے انسانی حقوق اور عورتوں کے حقوق کا چیخ پکار شروع ہو گیا پاکستان میں پہلے بھی متعدد سیاسی رہنما گرفتار ہوئے جیلوں میں بند کر دئے گئے سولی پر چڑھائے گئے شہید ہوئے لیکن کسی سیاسی جماعت کے کارکنان نے اس طرح کی حرکت کا ارتکاب نہیں کیا کہ جس پر دشمن بھی خوشی کے شادیانے
بجائے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی سیاسی کارکن نے کسی فوجی تنصیبات پر حملے نہیں کیے کسی ریڈیو اسٹیشن کو نہیں جلایا گیا اور نہ ہی کسی فوجی کی طرف انگلی اٹھائی گئی حالانکہ تب ایک آمر کی حکومت قائم تھی پھر اس کے بعد جمعت اہل حدیث پاکستان کے سربراہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو بم دھماکے میں دشمن قوتوں نے شہید کر دیا اس وقت علامہ شہید کا جنرل ضیاء الحق کی حکومت سے اختلاف تھا اور بعض لوگوں نے اس وقت اس واقعہ کا ذمہ دار اس وقت کی حکومت کو ٹھہرایا تھا لیکن جمیعت اہل حدیث کے کارکنان پورے پاکستان میں نکلے اور پر امن احتجاج کیا کسی املاک کو نذرآتش نہیں کیا اور نہ ہی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا اسی طرح اس کے بعد بے نظیر بھٹو اور نوازشریف متعددبار گرفتار ہوئے جیلوں میں بند کر دئے گئے لیکن ان کے کارکنان نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا گرفتاریاں تو سیاسی رہنماؤں کے لیے ایک اعزاز کی بات سمجھی جاتی ہے اور برصغیر کی سیاست میں تو اس کو سیاسی رہنماہی نہیں مانا جاتا جو کبھی جیل نہ گیا ہو یا جس نے گرفتاری نہ دی ہو لیکن تحریک انصاف کے قائد شاید پاکستان کے پہلے سیاسی رہنما ہیں جو نہ صرف جیل جانے سے ڈرتے ہیں بلکہ اپنے کارکنان کو اکساتے بھی ہیں کہ ان کی گرفتاری پر ملک بھر میں گھروں سے باہر نکلیں یہ جہاد کا وقت ہے اور بعد میں اپنے کارکنان سے ہی لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں جس طرح کی حرکت 9مئی کے دن ہوئی ہے اس پر اگر ہندوستان کے میڈیا پر نظر ڈالیں تو وہاں خوشی کا سماں ہے اورپاک آرمی کے خلاف ادار یے لکھے جارہے ہیں اور خوشی منائی جا رہی ہے کہ جو کام ہندوستان نہیں کر سکا ایک سیاسی جماعت کے کارکنان نے کر دکھایا ہے ہمارے ریاستی اداروں کو ہوش سے کام لینا چاہیے اور نرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر آج ان شر پسندلوگوں کو چھوٹ دے دی گئی تو کل کو یہ ایک طریقہ کار بن جائے گا کہ فوجی تنصیبات پر حملے کرو کورکمانڈر (جناح ہاؤس)کو نذر آتش کرو ایم ایم عالم کے جہاز کو جلاؤ جی ایچ کیو کے گیٹ کو توڑو ریڈیو اسٹیشن کو آگ لگادو اور آرام سے گھر جا کر سو جاؤ کوئی بھی آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا یہ رویہ اب تبدیل کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان ہمارا ملک ہے اگر یہ ملک قائم و دائم ہے تو ہم ہیں سیاسی جماعتیں ہیں قائد ین ہیں سیاسی کارکنان ہیں اگر خدانخواستہ ملک سلامت نہ رہا تو یہ سب کچھ نہیں رہے گا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے سیاسی کارکنان کی تربیت کریں ان کو سکھائیں کہ احتجاج کے مہذب طریقے کیا ہوتے ہیں پاک فوج کے ترجمان نے بالکل درست کہا ہے کہ پاکستان پچھتر سالہ تاریخ میں وہ کچھ نہ ہو جو ایک سیاسی لبادہ اوڑھے اقتدار کے خواہشمند گروہ نے کر دکھایا ہے چند لوگوں کی اس بری حرکت کو پوری قوم سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ پاکستانی قوم اس وقت پاک فوج کے ساتھ ہے اور اس طرح کے شر پسند کو لگام ڈالنے کے لیے فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں