سانحہ مشرقی پاکستان/ محمد حسین

27 رمضان المبارک کو جب اللہ تعالی نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں ہمارے بزرگوں کو پاکستان کی نعمت سے نوازا تو اس وقت ہر ایک کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ‘‘ اور

پھر ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ اس ملک کو بنانے اور اس کے ساتھ محبت کرنے کے جرم میں لاکھوں جوانیاں قربان ہو گئیں بے شمار عظمتیں لٹ گئیں بوڑھے والدین نے لرزتے ہاتھوں سے اپنے جوان بیٹوں کو قربان کر کے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر دیا اور ایک ایسی مملکت کا قیام عمل میں آگیا جو صرف اور صرف اسلام کے نام پر بنی تھی لیکن ہم سب نے د یکھا کہ اتنی قربانیوں کے نتیجے میں قائم ہونے والا ملک24 سال بھی قائم نہ رہ سکا اور وہ سانحہ پیش آگیا

اس سانحہ کی سب سے بڑی وجہ وہ جا گیردارنہ اور وڈیرہ شاہی نظام تھا جو کہ پاکستان کو ورثہ میں ملا قائداعظم ؒ کے بعد جو لوگ پاکستان کے مالک بنے ان کی اکثریت ہمیشہ چٹرھتے سورج کی بجاری رہی تقریبا تمام جاگیردار وہ تھے جنہوں نے انگریز کے ساتھ وفاداری کے انعام میں بڑی بڑی جاگیریں مراعات میں لی تھیں یہ انگریزوں کی غلامی کو دل سے قبول کر کے خود بھی انگریز ہی بنے رہے ان کا رویہ عوام کے ساتھ بالکل وہی رہا جو انگریز کا غیر انگریزوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے چنانچہ اس جاگیرداری اور و ڈیرہ چاہی نے طبقات بنانے شروع کر دیئے اور عوام میں محرومیوں اور ما یوسیوں کا دور دورہ شروع ہوگیا

رہی سہی کسر بیوروکریسی نے نکال دی جو خود بھی انگریز سے بہت ذیادہ متاثر تھے اوراسی طرز پر انہوں نے کام چلایا ۔ بیوروکریسی اور جا گیرداروں کی اکثریت وہ لوگ تھے جو شروع سے انگریز سے وفا دار تھے لیکن جب پتہ چل گیا کہ اب تحریک اس موڑ پر پہنچ چکی ہے کہ پاکستان کا قیام ناگریز ہوگیا ہے تو ان لوگوں نے مسلم لیگ کا رخ کیا اور بعد میں پھر یہی لوگ پاکستان پر قابض ہوگئے جو لوگ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں تعینات ہوئے انہوں نے بالکل انگریز جیسا رویہ رکھا اور وہاں کے لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا گیا

ہندؤں نے خصوصی طور پر ان باتوں کا فائدہ اٹھایا اوران لوگوں میں مایوسی اور محرومی پھیلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان بولی جاتی ہے اور اس زبان میں ہندؤں نے بہت محنت کی اور اپنے ناولوں اور مضامیں میں ان کے حقوق کو کھانے اور احساس محرومی یاد دلانے کا کام بڑے غیر محسوس لیکن موثر انداز میں کیا یہ سانحہ قوم کا درد رکھنے والے ہر انسان کو خون کے آنسوں رلاتاہے ہندوستان کی تقسیم کے وقت دراصل تقسیم پنجاب اور بنگال کی ہوئی تھی مشرقی پنجاب بھارت کے پاس اور مشرقی بنگال پاکستان کے مقدر میں آیا 23مارچ 1940کو منٹو پارک لاہور میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی دراصل یہ وہی قرار داد تھی جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کی منزل کا رخ واضع کیا یہ قرارداد ایک بنگالی لیڈر مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی مشرقی پنجاب اور دیگر علاقوں سے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے اور بنگالی مسلمانوں نے بھی آگ اور خون کا دریا پار کر کے خطہ پاکستان میں منتقلی اختیار کی سانحہ مشرقی پاکستان کے پیش آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کے تحریک پاکستان کے دوراں ہم نے جو وعدہ اپنے رب سے کیا تھا کہ اس ریاست کو مکمل اسلامی ریاست بنائیں گے اور یہاں سے تمام د نیا کے مسلمانوں اور تمام انسانیت کے حق میں آواز اٹھا ئی جائے گئی اور ہر لحاظ سے یہ ایک فقید المثال ریاست ہوگی لیکن افسوس کے ملک حاصل ہونے کے بعد حکمرانوں کو اپنے اقتدار کی طوالت اور اپنی ذاتی دلچسپیوں کی فکر قومی مفادات سے ذیادہ ہونے لگی برسر اقتدار طبقہ نے اپنے دل سے وہ تمام احساس نکال کر باہر کئے جن کی بنا ء پر بے شمار قربانیوں سے وطن کا حصول ممکن ہوا تھا پاکستان کے ساتھ یہ المیہ بھی رہا جس خطے میں یہ ملک قائم کیا گیا اس میں مسلمان پہلے کلیدی پوسٹوں پر نہیں تھے

تعلیم و صنعت و حرفت میں بھی یہ علاقے پیچھے تھے ہندوستان میں جہاں مسلمان صنعت و حرفت میں آگے تھے یا کلیدی پوسٹوں پر تھے وہ علاقے بھارت میں شامل کر دیے گئے یوں اس خطے میں تعلیم یافتہ صنعت کار اور قابل افراد کی کمی تھی مہاجرین میں اس طرح کے لوگ کثرت سے موجود تھے لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ انہوں نے اپنی الگ پہچان اور اپنے ساتھ مہاجر کا لفظ لگانا اور پھر اہل زبان یعنی اردو زبان کی وجہ سے تھوڑا تکرانہ رویہ رکھا اور جہاں بھی ان لوگوں کی تعیناتی ہوتی ان کا رویہ انگریز جیسا رہا دوسری بات یہ تھی کہ بجائے انفرادی ترقی کے ملک کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی جس پر توجہ نہیں دی گئی اور مشرقی پاکستان کے لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا گیا کہ اردو سرکاری زبان ہونے کی وجہ سے وہ لوگ محروم رہیں گے اور مغربی پاکستان کے لوگ اعلی عہدوں پر فائز رہیں گے اورمغربی پاکستان کے حکمرانوں کے رویہ سے وہ یہ سمجھتے تھے کہ شاید اصل پاکستان مغربی پاکستان ہی ہے اور مشرقی پاکستان اس کی کالونی ہے ایسے میں فوج کا کردار بھی قابل اعتراض ہے

ایوب خان نے اقتدار پرقبضہ جما کر اور پھر ہر بات بزور بازو منوانے والا کلیہ اختیار کر کے مشرقی پاکستان کے احساس محرومی کو اور بھی ہوا دی اس سارے کام میں سازشی عناصر نے موقع سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور ایوب خان کی ناعا قبت اندیشی اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کی حماقتوں نے شیخ مجیب کو اس عروج تک پہنچادیا کہ لوگ اس کی ہر بات ماننے پر مجبور ہوگئے یوں دونوں طرف سے اقتدار کی ہوس نے دوریاں پیدا کر دی اور وہ اتنی دور ہوئے کہ آج کئی سال گزرنے کے باوجود بھی وہ دوریاں ختم نہ ہو سکیں چاہیے تو یہ تھا

کہ جو ملک صرف اسلام کے نام پر بنا تھا اس کا سارا نظام قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھال دیا جائے تا کہ ہر طرف امن ہی ہو تا اور جس جذبے سے پاکستان بنا تھا اسی جذبے سے ترقی بھی کرتا لیکن چند جاگیرداراں، وڈیروں بیوروکر یسی اور جر نیلوں کی نا اہلی اور خود غرضی نے ملک کو دولخت کر دیا آج جب پاکستان کے دو ٹکڑے ہونے کے 44سال بعد غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کیا دوبارہ وہی کھیل یہاں پر تو نہیں کھیلا جارہا آج تک ہمارے ملک پر 22خاندان حکمران رہے ہیں آج بھی وہی جاگیر دار، سرمایہ داراوروڈیرے موجود ہیں اور ان کا کردارپہلے سے بھی بدتر ہے اور یہی لوگ دوبارہ مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کر رہے ہیں لسانی تنظیمیں اور گروہ مضبوط کئے جا رہے ہیں فرقہ
واریت ایک منصوبہ بندی سے پھیلائی جا رہی ہے علا قائیت کا تعصب بڑھتاہی جا رہا ہے ان تمام حقائق کو سامنے رکھ کر ایک ذی ہوش بحوبی ان حالات کا موازنہ ان حالات سے کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں یہ ملک ٹوٹاتھا ایسے میں حکمرانوں اور عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہماری اور ہمارے ملک کی بقا صرف اسلامی نظام سے وابستگی میں رہی ہے

اور ذرا سوچیے کسی ملک میں دشمن ایسے حالات پیدا نہیں کر سکتا ایسے حالات پیدا کرنے والے وہاں کے لوگ خود دانستہ یا نادانستہ طور پر ہوتے ہیں اور پھر دشمن ان حالات سے فائدہ ا ٹھایا کرتے ہیں بس یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا اور ہو رہا ہے قلعوں کے دروازے ہمیشہ اندر سے کھولے جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ اپنی بد قستمی کا سب سے بڑا سبب ہم خود ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اتنا بڑا سانحہ سہنے اور برداشت کرنے کے بعد ہم نے اس سے کچھ سبق بھی سیکھا ہے یا نہیں؟ اور کیا ہم نے اپنے حال اور مستقبل کے لئے عبرت کا کوئی سامان اور پیغام تلاش کیا ہے تو یقیناًاس کا جواب نفی میں ہے اردو ذبان کو جسے پاکستان کی قومی و سرکاری زبان قرار دیا گیاہے اس کی تاریخ کا کہیں نام نشان نظر نہیں آتا جس انداز میں دفتروں میں انگریز اپنا سامان چھوڑ گئے تھے کالے انگریزوں پر مشتمل ہماری بیو رو کریسی پشت در پشت محافظ چلی آرہی ہیں حقیقت یہ ہے کہ اردو قومی زبان کی تمام تر صلاحیتوں اور زرخیزی رکھنے کے باوجود ایک لونڈی ہے جبکہ انگریزی کو ملکہ کی حیثیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیارات انگریزوں کے وفا دار ہیں بلکہ انگریزی زبان کے ساتھ مسلسل انگریزی تہذیب کو رواج دینے میں بھی بھر پور کردار ادا کر رہے ہیں یہ بات ہمارے ذہن میں بہت پختہ ہے کہ ہم سب کا رب اللہ وحدہ لا شریک ہے اس نے ہمیں بنایاہے توپھر ہمارے لئے بہتر نظام دینے والا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا لیکن جب

ایک قوم اس رب کا کھا کر اسی کا پہن کر اسی کی دی ہوئی نعمتوں کو استعمال کر کے پھر اسی کی باغی بن جاتی ہے تو پھر اس پر عذاب آیا ہی کرتا ہے جب ہمارے بنکوں میں اللہ کے مقابلے میں سود کا نظام رائج ہو جب ہماری عدالت میں قرآن و سنت کو چھوڑ کر انگریزں کا قانون چلتا ہو جب ہماری پولیس انگریزوں کے بتائے ہوئے قانون پر چلتی ہو جب ہماری حکومتیں باطل نظام کے مطابق بنتی اور چلتی ہوں تو پھر ہم کس منہ سے اللہ سے مدد کی درخواست کر سکتے ہیں ایسی قوم جو لاالہ الااللہ بھی پڑھے اور اللہ کی باغی بھی ہو تو اس پر ایک نہیں کئی سقوط ڈھاکہ آئیں گے اور ان کے اوپر بتوں کے پجاری مسلط ہو جائیں گے اگر ہم اپنے ملک کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگیوں میں مکمل طور پر اسلام کو لانا ہو گا ورنہ زلت ہمارا مقدر بنی رہے گی پاکستان میں بھی منظم علیحدگی کی تحریکیں اپنی مضبوط جڑیں رکھتی ہیں ماضی میں اگر شیخ مجیب الرحمن تھا تو آج ہماری قومیت کے درمیاں ایسے لوگ موجود ہیں جو ملک و ملت کا شیرازہ بکھیرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ منفی نظریات پروان چڑھانے والوں کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے نمٹا جائے اور دو قومی نظریہ کے تحفظ کے لئے عملی اقدمات اٹھائے جائیں اور قومی وقار کی خاطر اسلام کے نظریے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیں اور ایسے افراد جو غیر کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اپنے نظریات وخوداری کا مذاق اڑاتے ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تا کہ مستقبل میں لوگوں کے لئے عبرت کا سامان پیدا ہو اور ملک و ملت کے خلاف کوئی غلط قدم اٹھانے کی جرت نہ کر سکے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں