سانحہ مری پربھی بدترین سیاست

آٹھ جنوری مری میں بائیس سیاح سردی اور برفباری کی وجہ سے اپنی گاڑیوں میں جاں بحق ہو گئے۔ امدادی ٹیموں کو پہنچنے میں تاخیر ہو گئی، برفباری اتنی زیادہ تھی کہ امدادی کاروائیوں میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، برفباری میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے لیے فوج طلب کی گئی۔ پورا ملک غم میں ڈوبا ہوا تھا۔ بلکہ پوری دنیا اس واقعہ پر سوگوار تھی، عالمی سطح پر تمام چھوٹے بڑے چینلز میں یہ خبر چلی۔ ہر ایک نے دکھ کا اظہار کیا۔ مگر ایک ہمارے سیاستدان تھے کہ جنہیں اپنی سیاسی دکانیں چمکانے کا موقع مل گیا۔ اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیاتو حکومت کے وزراء کہاں پیچھے رہنے والے تھے انہوں نے بھی کسی ندامت کا اظہار کیے بغیر اپوزیشن پر تنقید کے نشتر چلانے شروع کر دیے بلکہ ہمیشہ کی طرح اس واقعہ کی ذمہ داری بھی گزشتہ حکومتوں پر ڈال دی جبکہ ان کی اپنی حکومت قائم ہوئے بھی ساڑھے تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔سیاستدانوں نے ملک میں ایک طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا تھا۔ اس وقت جب پورا ملک غم کے عالم میں تھا تو سیاستدانوں نے ایک آدھ رسمی سا تعزیتی بیان جاری کر کے اپنا روایتی کھیل شروع کر دیااور ایک دوسرے پر خوب جی بھر کر تنقید کی۔ اگرچہ اس واقعہ کے ذمہ دار بہت سے تھے۔ کسی بھی ایک پر ذمہ داری عائد نہیں کی جاسکتی بلکہ اس میں عوامی غفلت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہماری سیاست کا یہ ایک سیاہ پہلو ہے کہ ہمارے ہاں سانحات پر سیاست شروع ہو جاتی ہے۔ بجائے اس پر سوچ و بچار کے بیان بازیاں اور ایک دوسرے کو ملامت اور لعن طعن شروع کر دیتے ہیں۔ ان دنوں تمام ٹیلیویژن چینل، تمام اخبارات اور سوشل میڈیا پر ان سیاستدانوں کے جھگڑے ہی ہو رہے ہوتے ہیں۔ متاثرین بھی حیرت زدہ انہیں دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہمارے غموں کا مداوا کب کریں گے؟ کیونکہ انہیں اپنی بیان بازیوں سے ہی فرصت نہیں مل رہی ہوتی۔ کوئی بھی بڑا واقعہ اٹھا کر دیکھ لیں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے، واقعہ کے فوراً بعد اپوزیشن حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کرتی ہے اور اس واقعہ کو حکومت کی ناقص کارکردگی کے ثبوت کے طور پر پیش کرتی ہے اور پھر اس کے جواب میں حکمران جماعت کی طرف سے بھی بیانات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ہر سیاست دان دوسرے کو سانحہ کا ذمہ دار ٹھہرا کر اپنی تعریفیں کر رہا ہوتا ہے۔ حکومت کو دیکھیں تو وہ اپنی کارکردگی گن رہی ہوتی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں بلکہ ”سب اچھا ہے“ اور یہ اپوزیشن جماعتوں کا کیا دھرا ہے جس کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن رہنما حکومت کو برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں، ان کے بیانات سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ موقع کی تاک میں تھے کہ کہیں (خدانخواستہ) کوئی بڑا واقعہ یا سانحہ پیش آئے او روہ حکومت پر تنقید شروع کریں اور بالکل ایسا ہی ہوتا ہے کہ جیسے ہی کہیں کو ناخوشگوار واقعہ یا حادثہ ہوتا ہے تو وہ متاثرین کی امداد اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کی بجائے حکومت کو آڑے ہاتھوں لے لیتے ہیں اور اس پر شدید تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ کسی کو سوچ و بچار کرنے اور سنجیدگی سے مسئلے کو دیکھنے اور آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ یہ آسان کام ہے کہ کوئی کام نہ کیا جائے بس کیمرے اور مائیک سامنے لگا کر بیٹھ جائیں اور ایک پر الزام لگائیں دوسر ے پر لگائیں، ایک دوسرے کو برا بھلا
کہیں اور چھٹی کر کے گھر چلے جائیں۔ ہر دور حکومت میں کوئی سانحہ رونما ہوا بلکہ کئی کئی سانحات رونما ہوتے رہے لیکن حکمرانوں نے ہمیشہ دوسروں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا اور میڈیا پر خود کو پاک صاف کر کے پیش کرنے اور دوسروں پر خوب کیچڑ اچھالنے کی بھر پور کوشش کی۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے مل بیٹھ کر سوچیں، سب سے پہلے تو اس واقعہ کی وجوہات پر غور کریں کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا اور ہم سے کہاں غلطی ہوئی ہے؟ کس نے غفلت برتی جس کی وجہ سے یہ سانحہ رونما ہوا۔ ان وجوہات کا تعین کرنے کے بعد آئندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات پر سنجیدگی سے غور کریں، ماہرین سے مشورہ کریں اور ان کی رائے کے مطابق فوراً عمل کریں۔ جس طرح سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد تمام جماعتوں نے الزام تراشیوں کی بجائے مل بیٹھ کر سوچا تو نیشنل ایکشن پلان کی صورت میں اس کا بہترین حل نکل آیا، جس کے ثمرات سے پورا ملک مستفید ہوا۔ اسی طرح اگر کوئی سانحہ پیش آجائے تو سب سے پہلے اس کے متاثرین کی داد رسی کی جائے، جہاں تک ممکن ہو ان کے نقصان کی تلافی کی جائے اور پھر تمام جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے ایک مشترکہ اجلاس منعقد کریں، جس میں ایسے واقعات کے آئندہ روک تھام کی کوشش کریں۔ سنجیدگی سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور اپنے اپنے تجربات کی روشنی میں مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں