سانحہ ماڈل ٹاؤن اور منصف ادارے

تاریخ میں شیر شاہ سوری کے عدل کا ایک حیرت انگیز واقعہ لکھا ہے کہ شیر شاہ سوری کا منجھلا لڑکا عادل خان ایک دن ہاتھی پر سوار ہوکر آگرہ کی کسی گلی سے جارہا تھا ایک مہاجن کی بیوی جو نہایت حسین جمیل اور خوبصورت تھی اپنے گھر کے صحن میں نہا رہی تھی اس کے گھر کی چہار دیواری نیچی تھی اسی لیے عادل خان جو ہاتھی پر سوار تھا اس کی نظر اس عورت کے جسم پر پڑ گئی وہ اسے دیکھنے لگا اور پان کا ایک بیڑہ بھی اس کی طرف پھینک کر اس کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا وہ عورت پارسا اور باحیا تھی ایک غیر مرد کے بے پردگی کی حالت میں دیکھ لینے کو برداشت نہ کرسکی اور خود کشی کرنے لگی اس کے اعزہ واقارب اور شوہر نے بڑی مشکل سے اسے خود کشی سے روکا اور اس کا شوہر پان کا وہ بیڑہ لے کر شیر شاہ سوری کے دربار میں حاضر ہوا جہاں وہ عوام کی شکایتیں سن رہے تھے اس نے اپنی عزت وناموس کی درد بھری روداد شیر شاہ سوری کے گوش گزار کی اس واقعہ کو سن کر شیر شاہ سوری بہت رنجیدہ ہوئے دیر تک افسوس کرتے رہے پھرحکم دیا کہ یہ مہاجن اسی ہاتھی پر سوار ہوکر عادل خان کے گھر آئے اور عادل کی بیوی اسی طرح برہنہ کرکے اس کے سامنے لائی جائے اور یہ مہاجن اس کی طرف بھی پان کا بیڑہ پھینکے ایسا انصاف جو اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنے ہی خلاف اور اپنے گھر کی عزت وناموس کی پرواہ کیے بغیر دیا گیا ہو شاید ہی کہیں ہمیں ملے چنانچہ یہ حکم سن کر پورا دربار کانپ اٹھا امراء اور اراکینِ سلطنت نے عادل خان کے ناموس کی حفاظت کے لیے سفارش کی مگر شیر شاہ سوری نے پوری متانت کے ساتھ جواب دیا کہ میں ایسے موقع پر کسی کی سفارش قبول کرنا ہرگز نہیں چاہتا میری نگاہ میں میری اولاد اور رعایا دونوں مساوی ہیں میری اولاد ایسی گھٹیا حرکت کرے اور میں اس کے ساتھ رواداری کروں یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا اس مہاجن نے جب عدل وانصاف کایہ فیصلہ سنا اور ایسا عدل جو اس کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا تو وہ شیر شاہ سوری کے قدموں میں پڑگیا اور اس نے خود عاجزی اور اصرار کے ساتھ درخواست کی کہ یہ حکم نافذ نہ کیا جائے میں اپنے دعوے سے دست بردار ہوتا ہوں یہ بھی حکمران تھے اور ادھر ھمارے حکمران ہیں جو عدل و انصاف کو خود اپنے ہاتھوں سے بھی ذبح کرتے ہیں اور عدل فراہم کرنے والے اداروں سے بھی ذبح کرواتے ہیں جو عدل وانصاف کے ضامن ہوتے ہیں ان اداروں کی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر دنیا میں ہمارا طوطی بولتا ہے ہماری اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر ہمیں دنیا میں 120 واں درجہ دیا گیا ہے ہم نے انصاف کو امیر کے گھر کی لونڈی بنا دیا ہے اس کا مشاہدہ آپ نے دو ماہ قبل بھی کیا ہے کہ ہمارے محترم المکرم وزیراعظم شہباز شریف صاحب نے جس دن اپنے منصب کا حلف اٹھایا اسی دن ان پر اور ان کے فرزند ارجمند موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب پر سولہ ارب روپے کی کرپشن اور منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم عائد ہونا تھی منصب ملا سب کچھ ختم اب وہ پاک صاف ہو گے ہیں اسی طرح 20 جون 2017 کو ایم پی اے مجید خان اچکزئی نے کانسٹیبل عطاء اللہ زرغون کو دوران ڈیوٹی روڈ پر کچل دیا تھا ستمبر 2020 میں ویڈیوز اور دیگر ثبوت ہونے کے باوجود با عزت بری کر دیا گیا اس کیس کا فیصلہ صرف اڑھائی سال میں کر دیا گیا یہ امیروں کے لیے انصاف تھا دوسری طرف غریبوں کے لیے کیسا انصاف ہے خود مشاھدہ کیجیے 17جون 2014 وہ اندوہناک و وحشت ناک دن تھا جب سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آیا اس المناک سانحے کو رونما ہوئے آٹھ برس بیت چکے ہیں یہ وہ دن تھا جب حکومت وقت کی ہدایت پر منہاج القرآن کے مرکز پر حملہ کیا گیا اور نہتے کارکنان پر بلااشتعال گولیاں برسائی گئیں خواتین بزرگوں بچوں پر بدترین تشدد کیا گیا اور 14 بے گناہ شہریوں کو دن دہاڑے میڈیا کے کیمرے کی آنکھ کے سامنے شہید کر دیاگیا پولیس کی وحشیانہ فائرنگ سے تقریباً 100 کے قریب لوگ شدید زخمی ہوئے شہداء میں دو خواتین تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ بھی شامل ہیں 8سال سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کروائی جائے اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے تحریک منہاج القرآن کے بانی و سرپرست ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دسمبر 2018ء میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے روبرو خود پیش ہو کر غیر جانبدار جے آئی ٹی کی تشکیل کے لئے دلائل دیے تھے جسے تفصیلی بحث اور دلائل کے بعد منظور کر لیاگیا لارجز بینج نے3 جنوری 2019 کو نئی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن جاری کیا اور نئی جے آئی ٹی نے اپنا کام شروع کیا اور نئی جے آئی ٹی نے پہلی مرتبہ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے چشم دید گواہان اور زخمیوں کے ساتھ ساتھ ملزمان میں میاں محمد نواز شریف میاں محمد شہباز شریف رانا ثناء اللہ پولیس افسران وغیرہ سمیت 287 افراد کے بیانات قلمبند کئے ساتھ ساتھ منہاج القرآن والوں نے ملزمان کا تمام فون ریکارڈ لوکیشن سمیت بھی جمع کروایا جے آئی ٹی نے جلد ہی اپنا کام مکمل کرلیا جب رپورٹ مرتب کرنے کا مرحلہ آیا تو سانحہ کے ایک ملزم پولیس اہلکار کی درخواست پر لاہور ہائیکورٹ نے 22 مارچ 2019 کو اپنے سے بڑی عدالت یعنی سپریم کورٹ کے حکم پر بننے والی جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن معطل کرنے کا حکم سناتے ہوئے سٹے آرڈر جاری کر دیا جو تاحال برقرار ہے شہداء کے ورثاء کی طرف سے اس سٹے آرڈر کے حوالے سے اپیل کی گئی جو تاحال زیر التوا ہے انصاف کیلئے کئی اپیلیں سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں سپریم کورٹ نے 13مارچ 2020ء کو لاہور ہائیکورٹ کو کیس کا فیصلہ 3 ماہ کے اندر ترجیحاً کرنے کی ہدایت دی مگر فیصلہ تاحال نہ آیا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیر جانبدار تفتیش کے حوالے سے شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کا جو موقف اور مطالبہ 17 جون 2014ء کے دن تھا وہی موقف اور مطالبہ آج بھی ہے یعنی کیس 2014 والی پوزیشن پر کھڑا ہے فیصلے کی جانب بڑھنے کا نا م ہی نہیں لے رہا الٹا پولیس کی ایف آئی آر پر کاروائی دوبارہ شروع کر دی گئی ہے منہاج القرآن کے کارکنوں کے خلاف کاروائیاں شروع کر دی گئی ہیں ذرا سوچیں یہ بات زبان زد عام ہے کہ بادشاہت ڈکٹیٹر شپ یا مارشل لاء طرز کی حکومتیں بہت بری ہوتی ہیں کیونکہ اس میں ادارے آزاد نہیں ہوتے وہاں لوگوں کے حقوق غصب ہوتے ہیں انہیں انصاف نہیں ملتا آپ نے شیر شاہ سوری کا واقعہ پڑھا وہ تو اتنے انصاف پسند تھے کہ اپنے بیٹے کے خلاف فیصلہ دے دیا جبکہ جمہوریت کے چیمپئن اپنی حالت بھی دیکھ لیں اجتماعی قتل کو آٹھ سال بیت گے جس کی پوری پاکستانی قوم شاھد و گواہ ہے وہ کیس ہی ابھی تک شروع نہیں ہوا کیوں کہ قاتل طاقتور اور مقتول کمزور ہیں کیا ایسے ہی انصاف ہوتا ہے اگر جواب ہاں ہے تو تھوڑا صبر کرو جب قوم خود انصاف کرے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں