سانحہ قصور اور سیاستدان

ساجد محمود
سانحہ قصور اور معصوم بچی زینب کی موت سے ملک کی فضا سوگوارہے ماضی میں بھی اغوا اور بچوں کیساتھ ذیادتی کے بعد قتل کے واقعات رونما ھوئے ہیں جن میں معاشرے کی بے حسی گھر والوں کی لاپروائی اور ریاستی اداروں کی غفلت شاملِ حال رہی ہے تاہم قصور واقعہ میں ملوث انسانی شکل میں بھیڑیا نما مجرم کو گرفتار کیا چکا ہے اس واقعہ کے بعد مستقبل میں ان واقعات کی روک تھام کیلئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے زریعے عوام میں آگہی مہم کا آغاز کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اسکول کالج اور مدرسے مساجد عوامی شعور کی بیداری میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں والدین کو بھی چاہیے کہ روزمرّہ اشیا کی خریداری کے لیے بچوں کو دوکان پر مت بھیجا جائے بچوں کو اسکول تک لانے اور لیجانے والے ڈرائیور حضرات اور اسکول کے چوکیدار وغیرہ کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جائے اور بچوں کو غیر متعلقہ اشخاص کے ساتھ میل جول میں احتیاط برتنے کی ہدایات جاری کی جائیں اسکے علاوہ دینی مدارس میں زیرِ تعلیم بچوں اور دیگر سرگرمیوں کو حکومتی نگرانی میں مانیٹر کیا جائے والدین اور اہلِ محلہ کوچاہیے کہ بچوں کی بری سوسائٹی میں جانے کی بجائے ان کو نماز کیطرف راغب کیا جائے اسکے علاوہ اشتہارات کے زریعے بھی آگہی مہم کا آغاز کارگر ثابت ھو گا ان اقدامات کے زریعے بچوں کی ذندگی کو محفوظ بنایا جا سکتاہے تاہم ان سماجی معاشرتی اور اخلاقی برائیوں کے تدارک کیلئے ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں بھی پوری کرنا ھوں گی ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض سیاسی راہنما اور مذہبی شخصیات اس دلخراش واقعہ کو جواز بنا کر اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے سرگرم ہیں لاھور میں جسطرح ماڈل ٹاون کے شہدا اور اس واقعہ پر سیاسی اسٹیج سجایا گیا اور خوشگوار ماحول میں پارلیمنٹ پر الزام تراشی اور غیر سنجیدہ رویہ اختیار کیا گیا وہ انتہائی قابلِ افسوس ہے جس سے عوامی حق رائے دہی کی بھی تذلیل ھوئی ہے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے باہمی اختلافات اقتدار کی کرسی کے گرد گھومتے ہیں انکا عوامی مسائل کے حل سے کوئی تعلق واسطہ نہیں موجودہ حالات میں کچھ سیاسی اور مذہبی راہنما مذہب کے نام پر سادہ لوح عوام کو بھڑکانے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں جن سے شدت پسند نظریات کے فروغ کو تقویت ملتی ہے مذہبی طبقہ عوام میں اسلامی تعلیمات اور اصل اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے میں ناکام رہا ہے محض مسلک کی بنیاد پر فتوی جاری کیے گئے اور اسلام کے نام پر قوم کو مسلکی بنیادوں پر تقسیم کردیا گیا لہذا مذہبی اکابرین کو درست اسلامی تعلیمات کی ترقی اور ترویج پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے احتجاجی سیاست کے زریعے توڑ پھوڑ اور راستوں کی بندش سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے نوزائیدہ مذہبی جماعت کے فیض آباد دھرنے کے نتیجے میں وزیرِ قانون کے استعفیٰ پر احتجاج اختتام پزیرِ ھوا تھا جسکے بعد دیگر مذہبی شخصیات کو مذہب سے اپنے لگاو کے اظہار کیلئے احتجاجی راستہ اختیار کرنا پڑا تاکہ عوامی سطح پر انکی مقبولیت اور مقام و مرتبہ میں کوئی کمی واقع نہ ھو جائے دوسری طرف پانامہ فیصلے کے بعد اعلیٰ عدلیہ مخالف بیانات سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ امیر اور غریب کیلئے انصاف کے پیمانے الگ ہیں شریعت کے نام پر جھتوں کی صورت میں لشکر کشی کے زریعے ملک میں اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرنے کی روش انتہائی خطرناک ہے ملکی سیاست میں کردار ادا کرنے کے لیے آپکو قومی سیاسی دھارے میں شامل ھونا پڑے گا اسلام نفرت کی بجائے امن کا درس دیتا ھے اگر علما دینی تبلیغ کا درست انداز میں فریضہ سرانجام دیں جس کے تحت انسانی خون کی حرمت ریاستی قانون کی عملداری حقوق العباد رزقِ حلال اور امن وامان کا قیام انکی تبلیغ کے عنوانات ھوں تو ان پر عمل کرکے حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار ھو سکتی ہے اگر مسلکی بنیادوں پر فتویٰ جاری کرنے اور عوام کو ایک دوسرے کے خلاف ورغلانے کا سلسلہ جاری رہا تو معاشرہ خلفشار کا شکار ھو گا لہذا ایسی سرگرمیوں سے اجتناب کیاجائے

اپنا تبصرہ بھیجیں