اب تک جن سنّوں کے رائج رہنے کے متعلق معلوم ہوسکا ہے وہ یہ ہیں سن یونانی۔ آغاز یکم ستمبر 5598 ق م،سن قسطنطین۔ آغاز یکم ستمبر 5508 ق م،سن سکندریہ۔ 29 اگست 5502 ق م،سن ابراہیمی۔ یکم اکتوبر 3015 ق م،سن اولیمپیاڈ۔ یکم جولائی 776 ق م، سن رومی۔ 24 اپریل 753 ق م،سن مقدونیہ۔ یکم ستمبر 312 ق م،سن بکرمی۔ 13 مارچ 57 ق م،سن جولین۔ یکم جنوری 45 ق م،سن ہسپانیہ۔ یکم جنوری 38 ق م،سن آ گسٹس۔ 14 فروری 27 ق م،سن عیسوی۔ یکم جنوری 1 عیسوی،سن تباری (یروشلم)۔ یکم ستمبر 69 عیسوی،سن ہجری۔ 16 جولائی 622 عیسوی،ایرانی سال۔ 1925، عیسوی5600 ق م سے پہلے کسی سن کا پتہ نہیں چلتاقدیم زمانے میں مصر، یونان اور بابل میں سال 304 دن کا ہوا کرتا تھا جس میں دس ماہ ہوتے تھے
پہلا مہینہ مارچ اور آخری مہینہ دسمبر ہوتا تھا روم کے بادشاہ توما پام پلی نے سال میں دو مہینوں جنوری اور فروری کا اضافہ کیا اور سال کو بارہ مہینوں اور 355 دنوں میں تقسیم کیاقدیم رومن کیلنڈر روم کے بادشاہ رامولس نے رائج کیااس نے ہر ماہ کا نام ایک دیوتا یا دیوی کے نام پر رکھاکیلنڈر انگریزی زبان کا لفظ ہے جو لاطینی زبان کے لفظ کیلنڈاء سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے ایک ماہ شمسی سال اس عرصے کے برابر ہوتا ہے جس میں زمین اپنے مدار کو پوری طرح طے کر لیتی ہے یعنی پوری طرح سورج کے گرد چکر لگا لیتی ہے یہ عرصہ 365 دن 5 گھنٹے 48 منٹ اور 46 سیکنڈ ہے شمسی سال کے شروع کے چھے مہینے 31 دن اور آخری پانچ مہینے 30 دن کے ہوتے ہیں بارہواں مہینہ اسفندلیپ کے سال میں 30 دن کا ہوتا ہے اور باقی سالوں میں 29 دنوں کالیپ کے سال کو سال کبیسہ کہتے ہیں جو ہر چار سال بعد آتا ہے ایرانی سال کا آغاز 31 مارچ سے ہوتا ہے اس وجہ سے اس دن ایران میں جشن نوروز منایا جاتا ہے
ہندوستان میں مغلیہ دور میں ایرانی کیلنڈر رائج رہاایرانی مہینے سال ہجری شمسی (خورشیدی) کے مطابق اس طرح ہیں فروردین، اردیبہشت،خرداد، تیر،مرداد، شہریور، مہر،آبان، آزر، دی، بہمن،اسفندسال میں چار موسم ہوتے ہیں بہار، تابستان،پاییز، زمستان قدیم چینی روایات کے مطابق ان کے ہاں بارہ سال کا ایک چکر چلتا ہے جس کی پیروی چینی اور جاپانی ہی کرتے ہیں چینی کیلنڈر میں ہر سال کو ایک جانور کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے وہ جانور یہ ہیں چوہا، بیل، چیتا،خرگوش، اژدھا، سانپ، گھوڑا، بھیڑ، بندر، الو، کتا اور سور یہ چکر بارہ سال میں مکمل ہوتا ہے ہرچینی سال نئے چاند کے دن شروع ہوتا ہے اور نیا سال 21 جنوری اور 20 فروری کے درمیان شروع ہوتا ہے نئے سال کے آغاز سے پہلی رات ایک بڑی خاندانی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے اس روز چینی لوگ اپنے خاندان کے ساتھ کھانا کھانے دور دراز کے علاقوں سے بھی پہنچ جاتے ہیں اور گزشتہ سال کے جھگڑے فراموش کر کے نیا سال نئی امنگوں کے ساتھ شروع کرتے ہیں نئے سال کے ساتویں روز بھی ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کیا جاتا ہے
چینی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ انسان دنیا میں ساتویں روز آیا تھا اس لیے یہ ہر انسان کی سالگرہ کا دن ہے پندرہویں روز بدروحوں کو بھگانے کیلئے پٹاخے چلائے جاتے ہیں حبشی تقویم میں سال میں تیرہ مہینے ہوتے ہیں بارہ مہینے تیس دن کے جبکہ تیرہواں مہینہ پانچ یا چھے دن کا ہوتا ہے یہودیوں کے کیلنڈر میں سال 355 دن کا ہوتا ہے وہ ہر انیس سال بعد گیارہ دن کا اضافہ کر کے اور درمیان میں سات مرتبہ ایک ایک فاضل مہینہ تیس دن کا بڑھا کر فرق پورا کرلیتے
ہیں یہودی تقویم کا پہلا مہینہ طشتری ہے بہائی قوم کے مطابق ایک سال میں انیس مہینے ہوتے ہیں جن کے نام یہ ہیں بہا، جلال، جمال، عظمت، تور، رحمت، کلمات، کمال، اسما، عزت، مشیت، علم، قدرت، قول، مسائل، شرفِ، سلطان،
ملک علااسلامی کیلنڈر کے مطابق سال میں 354 دن آٹھ گھنٹے ہوتے ہیں اسلامی مہینوں کے نام یہ ہیں محرم، صفر، ربیع الاول، ربیع الثانی، جمادی الاول، جمادی الثانی، رجب المرجب، شعبان المعظم، رمضان المبارک، شوال المکرم، ذی القعدہ، ذی الحجہ عرب میں قدیم زمانے سے قمری کیلنڈر رائج تھاقمری مہینے چونکہ موسموں کا ساتھ نہیں دیتے اس لئے عربوں نے جب یہ دیکھا کہ حج کبھی سردی اور کبھی گرمی میں آ جاتا ہے تو انہوں نے کبیسہ کا طریقہ رائج کیا یعنی دو یا تین سال کے بعد سال میں ایک ماہ کا اضافہ کرنے لگے اس عمل کو ہندوستان میں لوند کہتے ہیں یہ طریقہ قبیلہ کنانہ کے ایک شخص قلمسی نے رائج کیا تھااس قبیلے کا سردار حج کے موقع پر اعلان کرتا تھا کہ آئندہ حج کس مہینے میں ہو گا اور اضافی تیرہواں مہینہ اس نے کس مہینے کے بعد بڑھایا ہے یہ طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے تک رائج رہا،