سابق نائب ناظم راجہ ضیاالحسن تحریک لیبک میں شامل

گزشتہ ہفتے اتوار کی شب یوسی بشندوٹ میں اس وقت سیاسی حلقوں میں ہلچل دیکھنے کو ملی جب یونین کونسل بشندوٹ کے شرقی دیہات دھیری راجگان اور نندنہ جٹال سے متعدد متحارب سیاسی برادری کی اہم شخصیات نے پی ٹی آئی کو چھوڑ کر تحریک لبیک پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی تھی اس اہم میٹنگ کی سب سے اہم بات یونین کونسل بشندوٹ کے سابق امیدوار برائے نائب ناظم کی تحریک لبیک میں شمولیت تھی اس اجتماع میں یوسی بھرسے تحریک لبیک کے حامیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تھی جن میں اراضی خاص کی مذہبی وعلمی شخصیت قاضی سعید احتشام عمر اور یوسی بشندوٹ اراضی وارڈ سے تحریک لبیک کی کونسلر نشست کے متوقع امیدوار یاسر بلال تحریک لبیک کے جانثارحافظ خرم کے علاوہ دیگر نے بڑی تعداد میں اس شمولیتی پروگرام میں شرکت کی تھی جو اپنی برادری کا معقول ووٹ بینک بھی رکھتے ہیں مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک کایونین کونسل بشندوٹ کی سطح پر اب تک کا یہ بڑا شمولیتی پروگرام تھاجو یوسی بشندوٹ تحریک لبیک کے امیرحافظ سجاد حسین کی رہائشگاہ گاؤں واقع پرانہ نندنہ جٹال میں منعقد ہوا تھاجسکی صدارت سابق امیدوار برائے قومی اسمبلی جاویداقبال عباسی نے کی اس پروگرام میں سابق نائب ناظم یوسی بشندوٹ راجہ ضیاء الحسن‘سابق امیدوار جنرل کونسلر راجہ ثاقب محمود‘راجہ انتظار حسین اور راجہ عبدالخنان نے پی ٹی آئی چھوڑ کر برادری سمیت تحریک لبیک میں شمولیت اختیار کرلی ہے اس خوشی کے موقعہ پر تحریک لبیک کے جانثاروں نے ٹی ایل پی میں شمولیت اختیار کرنے پر گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے تھے اس موقع پر جاوید اقبال عباسی نے نئے شامل ہونیوالوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ بہت جلد ملک میں اسلامی نظام رائج ہوگا.یاد رہے تحریک لبیک میں شامل ہونے والوں میں ضیا الحسن کا اپنا مخصوص ووٹ بینک ہے اور ان کا اثرورسوخ آمدہ الیکشن میں یوسی بشندوٹ کے تین سے چار پولنگ اسٹیشن پر نظر آئے گا لیکن تعداد نتائج اور تحریک لبیک کے ووٹوں کی برتری کے حوالے سے کوئی حتمی رائے قائم کرنا قبل از وقت ہوگا تحریک لبیک میں دیگر شامل ہونے والوں میں ثاقب محمود جو سابقہ بلدیاتی الیکشن میں جنرل کونسلر کا الیکشن لڑ چکے ہیں انکی برادری کا بھی اپناووٹ بینک موجودہے اس حوالے سے تحریک لبیک یونین کونسل بشندوٹ کے امیر حافظ سجاد حسین نے پنڈی پوسٹ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ نندنہ جٹال کے دو پولنگ اسٹیشن ہیں جو پولنگ اسٹیشن پرانا جٹال‘دھیری مہرا جٹال‘،موہڑہ کھوہ‘ ڈھوک بلو اور موہڑہ حیال پر مشتمل ہے وہاں پران شاء اللہ ٹی ایل پی کی برتری واضح نظر آرہی ہے جبکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کا جھکاؤ بھی تحریک لبیک کی طرف ہے اور وہ اسی مذہبی جماعت میں شمولیت اختیار کرنے جارہے ہیں جبکہ جو پولنگ اسٹیشن نندنہ جٹال اگلا موہڑہ،موہڑہ کھوہ پر مشتمل ہے وہاں پر ٹی ایل پی کااچھا ووٹ بینک پہلے ہی موجود ہے اگر بلدیاتی الیکشن کا اعلان ہوتا ہے تو نندنہ جٹال سے مخالف جماعتوں کے امیدواروں کو ایک بڑا سرپراز ملے گا انکا مزید کہنا تھا کہ اسکے علاوہ بھی دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی کارگردگی سے مایوس ہوکر اسی یونین کونسل سے بعض سیاسی حلقے ان سے رابطے میں ہیں اور وہ بہت جلد باضابطہ طور پر ٹی ایل پی میں شمولیت کا اعلان کریں گے اور ان سے ہماری بات چیت حتمی مراحل میں داخل بھی ہوچکی ہے اس کے علاوہ باقی یوسی کے پولنگ اسٹیشن میں بھی مذہبی حلقوں کی حمایت سے ٹی ایل پی کا معقول ووٹ بینک موجود ہے جس میں وقت کیساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے جبکہ پولنگ اسٹیشن آراضی بانڈی اور بشندوٹ میں بھی ہمارے امیدوار سیاسی مخالفین کو ٹف ٹائم دینگے خاص طور پر پولنگ اسٹیشن بشندوٹ جہاں سے پی ٹی آئی اور ن لیگ کے امیدوار مدمقابل ہونگے انکا کہنا تھا کہ میرا پختہ یقین ہے کہ ٹی ایل پی انتخابات کے موقعہ پر ان پولنگ اسٹیشنز پر ایک بڑا سرپراز دینے کی پوزیشن میں ہے باقی الیکشن ڈے سے پہلے کچھ کہا نہیں جا سکتا تاہم یہ بات اظہر من الشمس لگتی ہے کہ ہمارے ملک کی مذہبی سیاست میں مخصوص مکتب فکر کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے جسے کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا چونکہ تحریک لبیک
کے کارکنان کی بڑی تعداد بریلوی مکتب فکر کا نظریہ رکھتی ہے اور خطہ پوٹھوہار میں اکثریت میں بریلوی مسلک کے پیروکار رہائش پذیر ہیں جبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن سے دلبرداشتہ مذہبی کارکنان کا جھکاؤبھی اب تحریک لبیک کی جانب ہے جس سے اس مذہبی جماعت کی سیاسی پوزیشن روز بروز مزید مستحکم ہوتی جارہی ہے یادرہے ‘ٹی ایل پی کا قیام جنوری 2017 میں کراچی کے نشتر پارک کے ایک جلسے میں عمل میں آیا تھا اورجب جنوری 2011 میں اس وقت کے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اُن کی اپنی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہل کار ممتاز حسین قادری نے توہینِ مذہب کا الزام لگاتے ہوئے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا بعدازاں 2016 میں ممتاز قادری کو سلمان تاثیر کے قتل کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی تھی تاہم اس واقعے کے بعد تحریک لبیک کے بانی خادم حسین رضوی کو اس وقت شہرت ملی جب انہوں نے ممتاز قادری کی سزا پر صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے وقتا فوقتا اسلام آباد اور راولپنڈی کو ملانے والے اہم شاہراہ فیض آباد انٹرچینج سمیت ملک کے مختلف شہروں میں دھرنے دئیے تھے اور پاکستان میں توہینِ مذہب قانون اور آئین کی شق 295 سی کے تحفظ کے لیے تحریک چلائی تھی خادم حسین رضوی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سعد حسین رضوی کو جماعت کا امیر مقرر کیا گیا ہے سابقہ دور میں وزارت داخلہ کیجانب سے تحریک لبیک پاکستان کو حکومتی رِٹ کو چیلنج کرنے کے جرم میں کالعدم قرار دے کر جماعت کے امیرسعد رضوی کو حراست میں لے لیا گیا تھا تاہم انکی رہائی کے بعد اب انکے تلخ لب ولہجے میں کافی حد تک تبدیلی واقع ہوچکی ہے اور اب انہوں نے ملکی آئین وقانون کے دائرہ اختیار میں رہ کر نفاذ نظام مصطفی کیلیے پرامن جمہوری انداز سیاست کی راہ پر چلنے کا عہد کرلیا ہے جو اعتدال پسند مذہبی سیاست کی جانب ایک مثبت قدم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں