زیتون کا پھل غذائیت سے بھر پور ہے

زیتون Olive Oil زیتون کا درخت تین میٹر کے قریب اونچا ہوتا ہے۔چمکدار پتوں کے علاوہ اس پر بیر کی شکل کا ایک پھل لگتا ہے جسکا رنگ اودا اور جامنی ذائقہ بظاہر کسیلا اور چمکدار ہوتا ہے ۔بنیادی طور پر یہ درخت ایشیا ئے کوچک ۔ فلسطین۔بحیرہ روم کے خطہ، یونان۔پرتگال ۔سپین۔ترکی۔اٹلی۔شمالی افریقہ۔الجزائر۔یتونس ۔امریکہ میں میں کیلی فرنیا۔مکیسکو۔پیرو اور آسٹریلیا کے جنوبی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ زیتوں کا تیل بطور صنعت اور برآمد کے فرانس۔اٹلی۔سپین۔ترکی۔الجزائر۔تونس اور یونان سے آتا ہے۔ حال ہی میں بلوچستان سے بھی زیتون کا تیل ڈبوں میں برآمد کیا گیا ہے۔ مفسرین کی تحقیقات کیمطابق زیتون کا درخت تاریخ کا قدیم ترین پودا ہے۔ طوفانِ نوح کے اختتام پر پانی اترنے کے بعد زمین پر سب سے پہلی چیز نمایاں ہوئی وہ زیتون کا درخت تھا۔ اس زیتون کا درخت سیاست میں امن اور سلامتی کا نشان بن گیا۔فلسطینی رہنما محمد عبد الروٗف یاسر عرفات نے جب اقوامِ متحدہ کے اجلاس سے خطاب کیا تو سب سے پہلی بات یہ کہی: “میں آپ کے پاس زیتون کی ڈالی لیکر آیا ہوں” اس سے یہ مفہوم یہ لیا گیا کہ وہ اقوامِ متحدہ میں امن اور سلامتی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ مصر قدیم میں بھی زیتون کا تیل کھانے، پکانے بلکہ اشیاء کو محفوظ کرنے جسم پر لگانے اور علاج میں استعمال ہوتا تھا۔ مصری مقابر سے برآمد ہونے والی اشیاء میں زیتون کے تیل سے بھرے ہوئے برتن بھی شامل ہیں۔تورئت میں تیل ملنے کا ذکر ہے زیتون کا پھل غذائیت سے بھر پور ہے مگر اپنے ذائقہ کی وجہ سے پھل کیصورت میں زیادہ مقبول نہیں۔ اس کے باوجود مشرقِ وسطیٰ۔ اٹلی یونان اور ترکی میں بہت لوگ یہ پھل خالص صورت میں اور یورپ میں اسکا اچار بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ یونان سے زیتون کا اچار سرکہ میں آتا ہے۔ اور مغربی ممالک میں بڑی مقبولیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب کے پہلے فرمانروا جلالۃ الملک عبد العزیز انب سعود مغفور کا ناشتہ کھجور۔ اونٹنی کا پنیر۔ تازہ زیتون اور اونٹنی کے دودھ پر مشتمل ہوتا تھا۔ زیتون کی زیادہ شہرت پھل سے برآمد ہونے والے تیل سے ہے۔ ڈبوں میں فروخت ہونے والی سارڈین اور دوسری مچھلیاں محفوظ رکھنے کے لیئے زیتون کے تیل میں رکھ کر پیک کیجاتی ہیں۔اسکی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ بوتل خواہ کھلی بھی رہے۔اس پر چیونٹیاں نہیں آتی اور جب اسے جلایا جائے تو یہ دوسرے تیلوں کیطرح دھواں نہیں دیتا۔ ْقرآن مجید نے زیتون اور اسکے تیل کا بار بار ذکر کر کے شہرتِ دوام عطا کر دیَ ( ترجمہ “یہ وہی خدا ہے کہ جو آسمان سے پانی برساتا ہے اس پانی کو انسان پیتے ہیں اور اسی پانی سے درخت اگتے ہیں جن پر تم اپنے جانور چراتے ہو۔ اسی پانی سے وہ تمہارے لیئے کھیتوں کا اگاتا ہے اور زیتوں اور کھجور اور انگور اور دوسرے پل اگتے ہیں”۔ ۔۔ وہ لوگ جو فکرو دانش رکھتے ہیں ان کے لیئے اس عمل میں بہت سی نشانیاں پنہاں کردی گئی ہیں۔مراد یہ ہے کہ اس عمل پر گور کرنے والوں کو ” اللہ تعالیٰ اپنے نور کی مثال میں میں ایک ایسے چراغ کو بیاں کرتے ہیں جس کے اوپر قندیل چڑھی ہو۔چراغ کی روشنی سے یہ قندیل ستاروں کی مانند چمکتی ہے۔ اس چراغ کو روشنی کے لیئے توانائی زیتون کے مبارک درخت کے تیل سے حاصل ہوتی ہے۔ زیتون کے تیل والا یہ درخت نہ تو مشرق میں ہے اور نہ مغرب میں۔قریب ہے کہ یہ تیل اپنے آپ ہی روشنی دینے لگے اور اس عمل کے لیئے خواہ اسے شعلہ نہ بھی لگایا گیا ہو” اس سے مراد درخت ایسی صورت میں استادہ ہے کہ سورج کی روشنی طلوع سے غروب تک اس پر کھل کر پڑتی ہے اور پھر ایک ایسا تیل پیدا کرتا ہے جو پاک صاف اور چمکدار ہوتا ہے۔ کتبِ مقدسہ میں بھی زیتون کا ذکرہوا اور طوفانِ نوح کا سلسلہ ختم ہونے کی اطلاع بھی زیتون کی ڈالی سے میسر آئی۔ (۔۔۔۔۔اور وہ کبوتری شام کے وقت اسکے پاس لوٹ کر آئی اور دیکھا تو زیتون کی ایک تازہ پتی اسکی چونچ میں تھی تب نوح نے معلوم کیا کہ پانی زمین سے کم ہو گیا) حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرت ہیں کہ “زیتون کا تیل کھاؤ۔اسے لگاو کیونکہ یہ پاک صاف اور مبارک ہے”(کتاب طبِ نبوی اور جدید سائنس) جاری ہےََََ۔۔۔ (یہ تحریریں صرف انسانی بھلائی کے جذبے سے مختلف کتب سے نقل کیجاتی ہیں۔ اگر کسی صاحب کی حق تلفی ہو تو مجھے آگاہ فرمایئگا۔ ممنون ہونگا) ؑ ای میل:pswapak@gmail.com “

اپنا تبصرہ بھیجیں