زندگی۔۔۔وہ حسین باغ ہے جو کائنات کے ہاتھوں سنوارا گیا ہے۔ یہاں بہار کے دنوں میں شاخیں کلیوں سے لدی ہوتی ہیں، رنگ برنگے پھول کھل کر فضا کو مسحور کر دیتے ہیں اور ہوا میں ایک ایسی تازگی رچ جاتی ہے جو دلوں کو جینے کی لذت سکھاتی ہے۔ پرندوں کی چہکار گویا بچپن کی معصوم قلقاریوں کا روپ دھار لیتی ہے اور دھوپ کی شوخ کرنیں لڑکپن کی شرارتوں کی مانند ہر گوشے کو جگمگا دیتی ہیں۔ پھر جوانی کا موسم آتا ہے جب باغ اپنی رعنائی کے عروج پر ہوتا ہے ہر پھول کھلا ہوا، ہر خوشبو بےحد گہری اور ہر منظر زندگی کے جادو سے لبریز۔
مگر پھر وقت کے پردے سرکتے ہیں، خزاں کی ہوا چلتی ہے اور رفتہ رفتہ رنگ زرد پڑنے لگتے ہیں۔ وہی شاخیں جو کبھی پھولوں سے جھک رہی تھیں، اب سوکھنے لگتی ہیں۔ پرندوں کے نغمے مدھم ہو جاتے ہیں اور باغ کے راستوں پر پتے بکھر کر خاموشی کی چادر تان دیتے ہیں۔ یہی بڑھاپے کی تصویر کشی ہے اک ایسی پھیکی مسکراہٹ جو وقت کی مسافت ختم ہونے کا پتہ دیتی ہے۔ اور پھر ایک گھڑی آتی ہے جب یہ باغ مکمل سکوت میں ڈوب جاتا ہے، جیسے کسی کھیل کے بعد پردہ گرا دیا گیا ہو۔
قدیر، جو فلسفے کا طالب علم تھا، کافی دنوں سے زندگی کے بارے انہی اہم حقائق پر سوچوں میں گرداں تھا، نے اج دو زانوئے تلمذ کرتے دادا ابو سے پوچھا، “دادا جان، زندگی کی اصل کیا ہے؟”
بڑے ابو مسکرائے اور بولے، “بیٹا، فلسفہ اور حکمت کی قدیم روایت میں زندگی کو عناصرِ اربعہ، پانی، مٹی، ہوا اور آگ کے امتزاج سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یونان کے ارسطو اور جالینوس سے لے کر مشرق کے ابنِ سینا اور فارابی تک سب نے اس راز کو سمجھنے کی کوشش کی،اور اسی نتیجہ پر پہنچے۔ مگر زندگی کا اصل راز آج بھی اپنی تمام تر گیرائی و گہرائی اور انوکھے حسن کے ساتھ انسان کے وجدان میں چھپا ہوا ہے۔ اسے ایک شاعر نے اپنے خوبصورت شعر میں یوں رقم کیا ہے
زندگی کیا ہے عناصر کا ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
قرآنِ کریم سے رجوع کریں تو زندگی کی حقیقت ایک اور جہت کے ساتھ سامنے آتی ہے
“انسان کی زندگی کی مثال ایسی ہے کہ زمین مردہ تھی ہم نے بارش برسائی تو وہ زندہ ہو گئی۔”
یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ نے زندگی کی بنیاد پانی کو قرار دیا ہے۔ انسانی وجود کا ڈھانچہ بھی مٹی سے بنا ہے مگر اس کا سب سے بڑا عنصر اب بھی پانی ہے، اور زندگی کی بقا کا راز باقی دیگر عناصر میں پوشیدہ ہے۔ صوفیاء نے اس گرہ کو ایک اور انداز میں کھولنے کی سعی کی ہے۔ سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ اسی بابت فرماتے ہیں
سینے وچ مقام اے کیہندا مرشد گل سجھائی ہو
اکو ساہ جیڑا اوے جاوے ہور شے نہ کائی ہو
اینوں اسم اعظم کیندے، ایہو سر الٰہی ہو
ایہو موت حیاتی باہو، ایہو بھید الٰہی ہو
حضرت سلطان باہوؒ نے زندگی کا مدار “سانس” کو قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق وجود کی بقا سانس پر قائم ہے، اور یہی سانس موت و حیات کے راز اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن زندگی کو پانی سے وابستہ قرار دیتا ہے تو سلطان باہوؒ نے اسے سانس کے ساتھ کیوں جوڑتے نظر آتے ہیں؟ قدیر نے سوچ کی الجھتی ڈور کو نئے سوال کا روپ دیتے پھر پوچھا؟
بیٹا! ” بظاہر یہ دونوں باتیں الگ دکھائی دیتی ہیں، لیکن دراصل یہ ایسے ہیں جیسے ریلوے لائن کی دو پٹڑیاں؛ الگ الگ مگر ساتھ ساتھ چلتی ہیں اور ایک ہی سمت میں آگے بڑھتی ہیں۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔
قرآن کی زبان سہل اور عام فہم ہے تاکہ ہر ذہن اسے سمجھ سکے، جبکہ اہلِ معرفت جب حقیقت کے پردے ہٹاتے ہیں تو وہ باریک تر حقیقتوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ سانس دراصل ہوا کی وہ مسلسل حرکت ہے جو وجود میں جاری رہتی ہے۔ اس کا ہونا زندگی ہے اور اس کا رُک جانا موت۔ انسان کی سانس آکسیجن پر مبنی ہے، جیسے دیگر مخلوقات کی سانس مختلف گیسز پر قائم ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے پانی کو زندگی کی بنیاد فرمایا اور پانی بھی دراصل گیسز کا ہی مجموعہ ہے۔ یوں اس حقیقت کی سمجھ آتی ہے کہ اللہ کے فرمان اور عارفوں کے بیان میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ پانی زندگی کی بنیاد ہے اور سانس اس بنیاد کو رواں رکھنے والا تسلسل۔ یہی زندگی کی اصل تصویر ہے ۔۔۔ یہی ایک سچائی ہے جس کو قرآن معظم میں اللہ کریم نے یوں ارشاد فرمایا ہے۔
“ہم نے ہر جاندار کو پانی سے زندہ کیا۔”
اور سلطان باہوؒ نے یہی کچھ اپنے الفاظ میں کہا “سانس ہی سب کچھ ہے۔”
بظاہر مختلف لگنے والے یہ دونوں بیانات دراصل ایک ہی راز ، ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔
قدیر آپ نے تو سائنسی مضامین بھی پڑھ رکھے ہیں آپ خوب جانتے ہونگے کہ سائنسی زاویۂ نگاہ سے بھی زندگی کی اصل ڈور سانس سے بندھی ہوئی ہے۔ جسم کو توانائی تبھی ملتی ہے جب خون کے سیلز میں شامل (سوار) آکسیجن وجود میں سرنگوں کی طرح بچھی، پھیلی رگوں کے راستے ہر خلیے تک پہنچتی ہے۔ لمحہ بھر کے لیے بھی یہ نظام ٹوٹ جائے تو زندگی کا چراغ فوراً بجھ جاتا ہے۔ گویا پانی جسم کی بنیاد ہے اور سانس اس بنیاد کو متحرک رکھنے والی قوت ہے۔
سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ پانی ایچ 2 او فارمولہ پر مبنی مائع حالت گیسز ہیں یعنی دو ذرات ہائیڈروجن اور ایک ذرہ آکسیجن۔ ہائیڈروجن کائنات کا سب سے ہلکا اور وسیع پھیلنے والا عنصر ہے، جبکہ آکسیجن زندگی کا لازمی جزو ہے، اور یہ دونوں پانی کے اندر موجود ہیں۔ یوں پانی بذاتِ خود سانس اور زندگی کے تسلسل کی علامت ہے۔ جو کسی بھی وجود کی اساس ہے۔ ہاں یہ مخلوقات کثیر میں درجہ بدرجہ اپنے نام اور تناسب میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ اہل فکر اگر ان نقاط کی گہرائی و گیرائی میں غوطہ زن ہوں تو زیر تذکرہ احکام کی عمیق جہتیں پرت در پرت کھلتی ہی چلی جاتی ہیں۔یوں میں مکرر کہوں گا کہ قرآن کا فرمان کہ “زندگی پانی سے ہے” اور صوفیاء کا بیان کہ “سانس ہی سب کچھ ہے” ایک ہی حقیقت کے دو روشن پہلو ہیں۔
زندگی مٹی اور پانی کے قالب میں ڈھلی ہوئی ہے۔ بس قرآن عام فہم زبان میں حقیقت کا بنیادی اصول بیان کرتا ہے، اور صوفیاء اسی حقیقت کی باریک ترین جہات کو آشکار کرتے ہیں۔ البتہ ظاہر، باطن، عقل اور لدنی علم سب کچھ اسی الہ العالمین کا نور ہے، جو اپنی تقسیم اور حکمت کے مطابق درجہ بدرجہ جسے چاہے جتنا چاہے عطا کرتا ہے۔ جیسے اس نے علم اور فضیلت سب میں درجات بنا رکھے ہیں۔
قدیر جو بڑے انہماک سے دادا کی باتیں سن رہا تھا، نے کہا دادا جی ابھی مشکل حل نہیں ہوئی کیونکہ یہاں ایک اور سوال جنم لیتا ہے کہ ہوا کیا ہے؟ جس کی بدولت ہر چیز اپنے لیے قدرت کے بنائے معروف یا غیر روایتی طریقے سے سانس لیتی ہے۔
دادا نے بات کو سمیٹتے ہوئے مزید کہا تو بیٹا ہم ایک بار پھر قرآنِ کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ سورۃ الحجر میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے “پھر جب میں اسے درست کر کے مکمل کر دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گر جانا۔ یہاں ’روح پھونکنے‘ کا ذکر ہے۔ پھونک بھی “ہوا” ہی ہے۔ اب یہ سوال باقی ہے کہ کیا روح ہوا ہے یا ہوا اس کی سواری؟ اور کیا یہ آپس میں لازم ملزوم ہیں۔ پھر اگر ہوا الگ ہے تو روح کسی سپیشل سافٹ وئیر کی مثل ہے جس کے وجود میں داخل ہوتے ہی ایک بت یکدم سے چلنے پھرنے، بھاگنے دوڑنے اور دیکھنے سننے لگتا ہے۔۔یا یہ ہوا میں مسلسل بہتے روشن پاور فل فلی پروگرامڈ سگنلز ہیں۔۔۔۔۔ شاید، شاید!!! اس کا درست جواب تو اہلِ معرفت، مشائخ، اہل دانش اور صاحبانِ علم ہی دے سکتے ہیں۔ بحرصورت یہ کسی نہ کسی سطح پر انسانی وجود اور زندگی کے ساتھ مضبوطی سے وابستہ ہے، اور کہیں نہ کہیں یہ معلوم مادی عناصر میں جزو اولین کے مقام پر فائز ہے۔سبحان اللہ ۔۔۔۔واللہ اعلم
تحریر: امجد علی