زلزلے کیوں آتے ہیں ؟/محمد حسین

آج سے بیس کروڈ سال پہلے سا ئیبریا کے علاقے میں ہزاروں آتش فشاں بیک وقت پھٹ پڑے جن کی وجہ سے ہولناک زلزلوں نے جنم لیا اور اس زمانے میں زمین پر جو بھی مخلوق آباد تھی وہ نیست و نابود ہو گئی پھر تقریباََ چھ کروڑ سال پہلے زمین پر ایک اور ہولناک زلزلہ آیا جو ایک شہا بیہ کے زمین

پر ٹکڑانے سے معرض وجود میں آیا جو تقریباََ دس مربع کلو میٹر لمبا تھا اس کی وجہ سے اس وقت کی زمینی مخلوق ڈائینو سارس صفحہ ہستی سے مٹ گئی اس کے بعددوسرا بڑا زلزلہ آ ج سے پچاس ہزار سال پہلے آیا جب انسان سے ملتی جلتی دو پاؤں پر چلنے والی مخلوق اس کی وجہ سے نیست و نابود ہو گئی اسی طرح کے تین اور بڑے زلزلے بھی آچکے ہیں جغرافیہ اور تاریخ کے اعداد دوشمار سے ہمیں پتہ چلتا ہے کے دنیا کے بہت سے مقامات پر چھوٹے چھوٹے زلزلے آتے ہیں جن میں لاکھوں افراد لقمہ بن چکے ہیں اور اربوں کھربوں ڈالر کا مالی نقصان بھی ہو چکا ہے جس کی بدولت زمین پر عجیب و غریب اور حیرت انگیز کیمیائی تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب الہٰی مختلف قوموں پر مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے جس میں زلزلے طوفان قحط و خشک سالی سیلاب کے علاوہ دیگر زمینی و آسمانی آفات شامل ہیں

جس کا بنیادی سبب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں اور نبیوں کی نافرمانی اور ان قوموں کی اپنی بد اعمالیوں کو قرار دیا گیا ہے جن کا ذکر قرآن حکیم میں ملتا ہے مثلاََ سورۃ روم میں ارشاد خداوندی ہے ’’بحرو بر میں فساد اُن کے گناہوں کے باعث پھیل گیا ہے جو لوگوں کے ہا تھوں نے کما رکھے ہیں تاکہ اللہ انہیں بعض برے اعمال کا مزہ چکھا دے جو انہوں نے کئے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں،، سورہ الشعریٰ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے’’ اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اس بد اعمالی کے سبب سے ہی پہنچتی ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالانکہ بہت سی کو تاہیوں سے تو وہ در گزر بھی فرمادیتا ہے،،زلزلے اور قدرتی آفات محض عذاب الٰہی ہی نہیں بلکہ یہ بندوں پر آزمائش کی صورت میں بھی نازل ہوتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ سے تو بہ و استغفار اور بخشش کے ساتھ رجوع کرنا چاہیے اس آزمائش کا ذکر قرآن پاک میں بھی مو جود ہے سورۃ یونس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ،، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال میں ایک یا دو بار مصیبت میں مبتلا کئے جاتے ہیں پھر بھی وہ توبہ نہیں کرتے اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں،،سورۃ نورمیں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،،

بے شک جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے ان کے لئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے اور اللہ ایسے لوگوں کے عزائم کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے اور اگر تم پر اس رسول اکرمؐ کے صدقے میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم بھی تباہ کر دئے جاتے مگر اللہ بڑا شفیق اور بڑا رحم فرمانے والا ہے،، سورۃ انفال میں حضرت محمدؐ کے صدقے اور طفیل غیر مسلموں اور کافروں پر ان کی نا فرمانیوں کے باوجود سابقہ قوموں کی طرح عذاب نہ نازل کرنے کے بارے میں ارشاد فر مادیا گیا ،، اور جب انہوں نے طعناََ کہا کہ اے اللہ اگر یہی قرآن تیری طرف سے حق ہے تو اس کی نا فرمانی کے باعث ہم پر آسمان سے پتھر بر سا دے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب بھیج دے اور در حقیقت بات یہ ہے کہ اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب نازل فرماتے حالانکہ اے حبیب مکرمؐ آپ بھی ان میں موجود ہوں اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب نازل فرمانے ولا ہے کہ وہ مغفرت طلب کر رہے ہوں آپ ہجرت مدینہ کے بعد مکہ کے ان کافروں کے لئے اور کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ اللہ انہیں عذاب نہ دے حالا نکہ وہ لو گوں کو مسجد حرام سے روکتے ہیں اور وہ اس کے متولی ہونے کے اہل بھی نہیں اس کے اولیاے تو صرف پر ہیز گار لو گ ہوتے ہیں مگر ان میں سے اکثر جانتے ہی نہیں،،

اللہ تعلی نے قرآن کریم کی سورۃ الزلزال کی پہلی چند آیات میں قرب قیامت کی بڑی نشانیوں میں سے ایک ہولناک زلزلے کا زکر کرتے ہوئے فرمایا،، جب زمین اپنے سخت بھونچال سے بڑی شدت کے ساتھ تھر تھرائی جائے گی اورزمین اپنے سب بوجھ نکال باہر پھینکے گی اور انسان حیران وپریشان ہو کر کہے گا اسے کیا ہو گیاہے،،
مفسرین نے فرمایا ہے کہ ان آیات مقدسہ میں ایک ایسے زلزلے کا ذکر کیا گیا ہے جو پوری روئے زمین پر آئے گا اور قیامت بر پا کر دے گا اور اس ہیبت ناک اور خوفناک زلزلے سے زمین کا کوئی حصہ محفوط نہیں رہے گا جس کے نتیجے میں پوری زمین کو ہموار کر دیا جائے گا اور ایسا نضخ ثانی کے بعد ہو گا مگر اس سے قبل چھوٹے چھوٹے زلزلے آئیں گے جو قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہوں گے اور جو کثرت سے رونما ہوں گے۔
امام بخاریؒ نے حضرت ابو ہریرہؓ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت اُس وقت تک نہیں آئے گی جب تک علم کو اُٹھا نہیں لیا جاتا اس وقت کثرت سے زلزلے آئے گے ایک زمانہ دوسرے کے قریب تر ہو گا فتنہ و فساد ظاہر ہو گا خرچ میں اضافہ ہو گا یہاں تک کہ مال و دولت کی فراوانی اس طرح ہو گی جیسے اُبل پڑے گی۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے دوسری حدیث مبارکہ میں رسول اکرمؐ نے قرب قیامت کی نشانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب مال غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے امانت میں خیانت کی جائے زکوٰۃ کو بوجھ سمجھا جائے دینی تعلیم دنیا کے لئے حاصل کی جائے آدمی بیوی کی اطاعت کرنے لگے اولاد ماں کو ستانے لگے دوستوں کو قریب اور والدین کو دور کر دیا جائے انسان سے ڈر کر اس کی عزت کی جائے گانے بجانے والی عورتیں اور سامان تمیش کی کثرت ہو جائے شرابیں پی جانے لگیں امت کے بعد میں آنے والے لوگ پہلے لوگوں پر لعنت ملامت کرنے لگیں تو پھر اس زمانے میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو اور زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہو جانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور دیگر آفات اور نشانیوں کا انتظار کرو جو اس طرح ظاہر ہو گی جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے تو اس کے دانے گرتے رہتے ہیں۔ صحابی رسول سید نا انس بن مالکؓ نے ایک مرتبہ حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟

حضرت عائشہؓ نے فرمایا جب لو گ زنا کو حلال کر لیں شراب پینے لگے اور گانے بجانے کے مشغلہ کو اپنا لیں تو پھر اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ زلزلہ بر پا کر دے اگر اس علاقے کے لوگ توبہ استغفار کر لیں اور اپنی بد اعمالیوں سے باز آجائیں تو ان کے حق میں بہتر ہے ورنہ ان کے لئے ہلاکت ہے حصرت عبداللہ بن مسعودؓ کے زمانہ میں ایک مرتبہ کو فہ میں زلزلہ آیا تو انہوں نے اعلان عام کیا کہ اے لوگو یقیناًتمہارا رب تم سے ناراض ہو گیا ہے اگر اس کی رضا مندی چا ہتے ہو تو فوری اس کی طرف رجوع کرو اور اجتماعی تو بہ کرو وگرنہ اسے یہ پرواہ ہر گز نہیں ہوگی کہ تم کس وادی میں ہلاک ہوتے ہو حضرت عمر بن عبدالعزیرؓ کے زمانہ میں ایک مرتبہ جب زلزلہ آیا تو انہوں نے اپنے تمام گو رنروں کو خصوصی پیغام بھیجا کہ سنو اور اچھی طرح جان لو کہ زلزلے کے جھٹکے سزا کے طور پر آتے ہیں لہٰذا تم لوگ صدقہ و خیرات کرتے رہو اور تو بہ استغفار میں لگے رہو اور حضرت آدمؑ کی یہ دعا مانگتے رہو، دونوں نے عرض کیا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ذیادتی کی اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم یقیناًنقصان اُٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے،،

ذرا سو چئے کہ زلزلے اور دیگر آفات محض عذاب الہٰی ہی نہیں بلکہ اللہ کے نزدیک نیک و پارسا بندوں پر آزمائش بھی ہیں لہذٰا اس کے مصائب و آلات سے بچنے کے لئے ہم کو بحثیت قوم سابقہ قوموں کے واقعات سے عبرت حاصل کرنی چاہیے ان قرآنی واقعات کا مطالعہ کرنا چاہیے جو ان نافرمان قو موں پر غضب الہٰی کے نزول کا سبب بنے اور جہاں بھی یہ قہر خداوندی بر پا ہو تا ہے اُن آفت زدہ علاقوں میں بلا تفریق مذہب و ملت بحثیت انسان ہمیں چاہیے کہ ان بے یارو مددگار سسکتے انسانوں پر مصیبت و آزمائش کے ان پر کٹھن لمحات میں اپنی مالی و فلاحی خدمات بڑھ چڑھ کر پیش کریں اور اپنی ان بد اعمالیوں مثلاََ ظلم و بر بریت، اغوا ، دھوکہ دہی، کرپشن، لوٹ مار، قتل وغار تگری،بے حیائی، عریانی و فحاشی، سود خوری، چوری، ڈاکہ ذنی، رشوت ستانی، ذخیرہ اندرونی، زنا کاری اور اب قوم لوط کاوہ عمل جس کی وجہ سے اس قوم لوط پر زلزلہ اور پتھروں کی بارش کا عذاب نازل ہوا تھا سے تو بہ کر لیں اور ایسے اعمال سے باز آ جائیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی ما نگیں اور توبہ و استغفار کریں۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں