کالم

ریلوے حادثات

پیر کے روز سندھ میں ہونے والے ریلوے کے افسوس ناک حادثے کے فوراً بعد وفاقی وزراء نے اس پر افسوس یا شرمندگی کا اظہار کرنے کی بجائے اس کی ذمہ داری گزشتہ حکومتوں پر ڈال دی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنی قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس و ندامت کا اظہار کرتے، قوم سے معافی مانگتے اور اس کی تلافی اور آئندہ حادثات سے بچاؤ کے لیے اپنے محلات سے نکل کھڑے ہوتے اور ریلوے کے تمام دفتروں اور سٹیشنوں کے چکر لگا کر خامیوں اور کمزوریوں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتے اور پھر ان خامیوں کو دور کرنے کے لیے کام کا آغاز کر دیتے لیکن یہاں تو عجیب سی صورتحال ہے۔ تمام وفاقی وزراء یک زبان ہو کر گزشتہ حکومتوں کو کوسنے لگے۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی یہ روایت ہے کہ جب وہ بڑے بڑے دعوے کر کے عوام سے ووٹ لینے اور حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن بعد میں اپنی نااہلیوں کی وجہ سے کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوتے تو اپنی ناکامیوں کا ملبہ گزشتہ حکمرانوں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن موجودہ حکومت نے تو اس روایت کو پروان چڑھانے میں حد ہی کر دی ہے۔ تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی گزشتہ حکومتوں پر ذمہ داری ڈالنا انتہائی غیر سنجیدہ حرکت ہے۔ کوئی بھی واقعہ ہو جائے گزشتہ حکومت کو ذمہ دار قرار دے دیا جاتا ہے۔ معیشت درست نہیں ہو رہی تو گزشتہ حکومتوں نے اسے بگاڑا ہے، مہنگائی بڑھ رہی ہے تو گزشتہ حکومتیں درست نہیں کر پائیں، بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے تو گزشتہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہے،اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تین سال حکمرانی کرنے کے بعد، دو وزراء تبدیل کرنے کے بعد بھی ریلوے حادثات کا ذمہ دار گزشتہ حکومتوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ آپ اس کا ذمہ دار گزشتہ حکومت کی بجائے گزشتہ وزیر کو کیوں نہیں قرار دے رہے جن کے اپنے دور میں درجنوں ریلوے حادثات ہوئے، جن کی وجہ سے انہیں ترقی دے کر وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔اب کہیں آپ بھی اس خوش فہمی میں حادثات تو نہیں کرا رہے کہ شاید آپ کے دور کے حادثات زیادہ خطرناک ہوں یا ان کی تعداد گزشتہ وزیر صاحب کے دور کے حادثات سے زیادہ ہو تو آپ کو وزیراعظم بنا دیا جائے گا۔
اگر کسی انصاف پسند ملک میں ایسے حادثات ہوتے تو ابھی تک کئی وزراء اور افسران گھروں کو بھیجے جا چکے ہوتے لیکن کمال ہے ہماری ذہنیت پر کہ ہم انہیں ترقی دے دیتے ہیں کہ نسبتاً چھوٹے محکمے کا بیڑا آپ نے کامیابی سے غرق کیا اب بڑے محکمے میں اپنی خدمات انجام دیں اور اسے بھی ایسے ہی مہارت سے تباہ کریں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے واقعات کی ذمہ داری کسی کو قبول کرنی ہی پڑتی ہے اور انہیں اس کی قرار واقعی سزا بھی ملتی ہے لیکن یہاں تو کوئی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہے بس آسان بات ہے کہ گزشتہ حکومتوں پر ذمہ داری ڈال کر اپنی گلو خلاصی کرا لو۔ جب ذمہ داروں کا تعین ہی نہیں کیا جاسکتا تو پھر کس کے خلاف کاروائی ہو گی اور ذمہ داروں کو کیسے نکال باہر کیا جا ئے گا؟
ریلوے کی حالت نہایت خستہ ہے، بہت پرانے اور بوسیدہ انجن ہیں جو بیس بیس بوگیوں کو کھینچتے ہیں، اسی طرح بوگیاں بھی نہایت خستہ حال ہیں جو کبھی تو پٹڑی سے اتر جاتی ہیں اور کبھی ان میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگ جاتی ہے۔ ریلوے لائنوں کی تو بات ہی نہ کریں کیونکہ یہ اس ملک میں انگریزوں کی آخری نشانی ہے جو اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اور اس میں کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ نہیں کی گئی۔ اس میں ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ان ریلوے لائنوں میں ہڑپہ کے عروج کے زمانے کی اینٹیں بھی موجود ہیں، جب انگریز ریلوے لائن بچھانے کے لیے کھدائی کر رہے تھے تو وہاں سے ایک شہر کے آثار دریافت ہوئے انہوں نے اس شہر کی عمارتوں کی اینٹیں نکال کر ریلوے لائنوں میں ڈالنی شروع کر دیں،یوں یہ اینٹیں ہزاروں سال قدیم ہیں جن پر ٹنوں وزنی ریل گاڑیاں چل رہی ہیں۔ انہوں نے جو لائنیں بچھا دیں ہم غنیمت سمجھ کر انہیں ہی استعمال کر رہے ہیں اور نئی لائنیں بچھانا تو درکنار ان پرانی لائنوں کو درست کرنے کی توفیق بھی ہماری حکومتوں کو نہیں ہو رہی۔ صرف گزشتہ حکومتوں پر ذمہ داری ڈال کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ حکومت پر ذمہ داری اگر ڈالنی بھی ہو تو وہ ابتدائی چند ایام میں ڈالنی چاہیے کہ ان کی حکومت کے خاتمے کو چند ماہ ہوئے ہیں اور آپ کو ابھی کام کرنے کا وقت نہیں ملا لیکن تین سال گزر جانے کے باوجود گزشتہ حکومتوں کو ذمہ دار قرار دینا کہاں کا انصاف ہے؟ ریلوے کے بوسیدہ نظام کی درستی کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے؟ ریلوے لائنوں کی بوسیدگی کا یہ عالم ہے کہ راقم الحروف نے اسلام آباد میں ایک اہم ریلوے لائن پر ریل گاڑی کے چلتے ہوئے پٹڑی کو دبتے اور واپس اوپر اٹھتے ہوئے خود دیکھا ہے، یعنی پٹڑی کے نیچے کوئی چیز اسے سہارا دینے کے لیے موجود نہیں تھی۔ یہ تو اسلام آباد کی حالت ہے تو دور دراز علاقوں میں ریلوے لائنوں کی کیا حالت ہو گی۔ لہٰذا حکومت سے گزارش ہے کہ وہ گزشتہ حکومتوں پر ذمہ داری ڈالنے کی روایت کو ترک کر کے اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی کوشش کرے

admin

Recent Posts

مسرت شیریں کے نام ایک شام

اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے ہال میں اس وقت ایک دلکش اور یادگار منظر…

5 hours ago

*کشمیری بہن بھائیوں کے حقوق کے محافظ ہیں اور رہیں گے: وزیراعظم

راولپنڈی (نامہ نگار سید قاسم) وزیراعظم شہباز شریف نے آزاد کشمیر میں مذاکرتی عمل کی…

9 hours ago

معذور افراد کو محض ہمدردی کے مستحق نہیں بلکہ بااختیار شہری تسلیم کیا جائے

معاشرتی انصاف اور مساوی حقوق کے لیے کی جانے والی ہر جدوجہد کی طرح، معذوری…

9 hours ago

ٹرمپ کا امن منصوبہ: گریٹر اسرائیل کی طرف ایک بڑا قدم

عالمی چوہدری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی پرانی مسلم دشمنی اور یہود دوستی کا…

12 hours ago

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی “زیرو ویسٹ صفائی آپریشن”

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی ہدایت پر کلرسیداں میں خصوصی "زیرو…

12 hours ago

موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت اور بدسلوکی پر مقدمہ درج

کلرسیداں (نمائندہ پنڈی پوسٹ) آئیسکو کی کارروائی موضع انچھوہا میں بجلی چوری پکڑی گئی، مزاحمت…

12 hours ago