رکشہ ڈرائیور کی بیٹیاں بازیاب نہ ہوسکیں

عبدالستار نیازی ‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
بچپن سے سنتے آئے ہیں ، بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں، مگر معاشرتی بے حسی کے کیا کہنے ، بیٹیوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر ، درندگی کا نشانہ بنا کر اس معاشرے کے ناسور دندناتے پھرتے ہیں، بیٹیاں تو خدا کی رحمت ہوتی ہیں، کیا ہم مسلمان ہیں ؟ کیا ہم انسان کہلانے کے بھی لائق ہیں؟ کیا منتخب نمائندے، ادارے بیٹیوں کو انصاف نہیں دلاسکتے ؟ کونسی وجوہات کارفرما ہیں؟ اس نظام کے تحت تبدیلی کا خواب دیکھنے والے کب خواب غفلت سے بیدار ہوں گے ؟ اگر آپ قانون سازی کرنے کی جرأت نہیں رکھتے تو حکومت چھوڑ کیوں نہیں دیتے ؟ ایسے لاتعداد سوالات عوام کے ذہن میں روز پیدا ہوتے ہیں مگر ان کا جواب چونکہ کسی کے پاس نہیں تو اس لئے تبدیلی نعروں کی مایوسی لئے رات کو نیند کے دوران آنے والے خوابوں کی طرح جھٹلا دیاجاتاہے ، پورے پاکستان میں نہ جانے کتنی بیٹیاں اغواء ہوتی ہیں، کتنوں کے ساتھ زیادتی اور درندگی ہوتی ہے، کچھ کیس تو رپورٹ ہوتے ہیں مگر جو عزت کو میڈیا اور پولیس کے روپ میں بیٹھے بھیڑیوں کی زینت بننے سے بچاتے ہیں ان کیساتھ پوری زندگی کیا قیامت گزرتی ہے ؟ کبھی آپ نے سوچا ؟ کبھی میں نے سوچا؟ کیوں نہیں سوچتے آپ اور میں ،جب لائن میں لگ کر ووٹ دیتے ہیں ، کیا ہمیں صرف ایک دن کی آزادی ہوتی ہے ؟ گزشتہ روز کراچی میں واقعہ پیش آیا ، واقعہ کچھ اس طرح کا تھا کہ 22سالہ لڑکی کو دانت میں درد تھا جس کی دوائی لینے وہ سرکاری ہسپتال گئی جہاں پر اسے غلط انجکشن لگا کر ابدی نیند سلا دیا گیا، بعد ازاں عجیب موڑ اس وقت اس کیس میں آگیا ہے جب پوسٹمارٹم میں لڑکی سے زیادتی کے شواہد سامنے آگئے ، کس نے کی زیادتی ؟ سرکاری ہسپتال بچیوں کے ساتھ زیادتی کیلئے ہوتے ہیں ؟ یہ واقعہ سندھ کا ہے مگر پنجاب کے کیسز بھی مختلف نہیں، میں معاشرے کی بے حسی پر حیران و پریشان ہوں، ’’میرے ہاتھ میں قلم ہے میرے ذہن میں اُجالا ‘‘کے مصداق میں اپنا حصہ ڈالتا رہاہوں اور ڈالتا رہوں گا ، میرا آج کا موضوع گوجرخان کے ایک غریب رکشہ ڈرائیور کی بیٹیوں کا اغواء اور تاحال بازیاب نہ ہونا ہے، پولیس کی بے حسی تو اپنی جگہ منتخب نمائندوں کی بے حسی پر رونا آرہاہے، جنہوں نے غریب کے گھر جاکر اس کو دلاسہ دینا مناسب نہ سمجھا، کیااسی لئے ووٹ لئے تھے ؟ کیا یہی تبدیلی ہے ؟ ایم این اے اور ایم پی اے دونوں تعزیت ، فاتحہ خوانی، جنازے ، افتتاح ، تقاریب ، ولیموں پر جاکر فوٹو سیشن تو کروارہے ہیں ایک فوٹوسیشن اس غریب کے گھر جاکر بھی کروا لیں تاکہ آپکو اندازہ ہوجائے کہ وہ غریب ماں کس بے بسی سے دروازے کی جانب بیٹھی دیکھتی رہتی ہے جس کی بیٹیاں درندے 26/27دن قبل ورغلا کر ساتھ لے گئے، میں دعوے کے ساتھ یہ بات کہتاہوں کہ کسی اچھے بھلے گھر کی بیٹی اغواء ہوتی تو اب تک وزیراعلیٰ ، وزیراعظم اور چیف جسٹس کے نوٹس لئے جانے کے ساتھ ساتھ بچی بازیاب بھی ہو چکی ہوتی، اور تو اور یہاں معاشرتی بے حسی دو چار قدم آگے دکھائی دے رہی ہے، سوشل میڈیا پر وزراء کے استعفے تو ڈسکس کئے جارہے ہیں، حکومت کی کارکردگی میں قصیدہ خوانی تو کی جارہی ہے مگر غریب خاندان کی جانب کسی کی توجہ نہیں، ڈی ایس پی سرکل گوجرخان ، ایس ایچ او تھانہ گوجرخان اور تفتیشی افسروں کی بہیمانہ غفلت کے باعث معاملہ جوں کا توں لٹکا ہواہے ، سی پی او راولپنڈی کی بے حسی بھی عروج پر ہے جنہوں نے تین یوم کا وقت دیا تھا مگر دس دن گزرجانے کے باوجود کوئی پیش رفت نہ ہوسکی، اغواء کار میاں بیوی اور اغواء شدہ دو لڑکیوں کو زمین کھاگئی یا آسمان نگل گیا؟ قتل کا ملزم پولیس نہیں پکڑ سکتی، اغواء کاروں کو پولیس لگام نہیں دے سکتی، چوری ، ڈکیتی رہزنی کی وارداتوں کو پولیس نہیں روک سکتی ، عوام کو جان و مال کا تحفظ حاصل نہیں تو بند کر دو اس ادارے کو ، عوام کے ٹیکس سے کروڑوں کی تنخواہیں کیوں ملتی ہیں؟ جو کام نہیں کرے گا گھر جائے گا کے دعویدار اب تک اصلاحات کیوں نہ کرسکے ؟ کیونکہ اس نظام میں اصلاحات کیلئے دل گردہ چاہیے ، کٹھ پتلی حکومتیں کچھ نہیں کر سکتیں، مخالفت برائے مخالفت کی سیاست نے اس ملک کی تباہی کی ہے اور آئندہ بھی یہی نظرآرہاہے، ڈی ایس پی سرکل گوجرخان نے رابطہ کرنے پر کہا کہ نامزد ملزم فہیم کے بھائی کو گرفتار کررکھا ہے جس سے معلومات اور موبائل ڈیٹا کے ذریعے ملزمان تک پہنچنے کی پوری کوشش کررہے ہیں، مگر کب تک آپ صحافتی حلقوں کو تسلیاں دیتے رہیں گے ؟ منتخب نمائندوں میں سے کسی نے بھی غریب رکشہ ڈرائیور کے گھر جا کر اسے دلاسہ دینے کی کوشش تک نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت پولیس پوری توجہ کے ساتھ اس معاملے کی تہہ تک پہنچے اور غریب مزدور کی بیٹیوں کو بازیاب کرائے ، تبدیلی سرکار اور ریاست مدینہ کے دعویداروں کے دوراقتدار میں ایک غریب کی بیٹوں کا 27 دن گزر جانے کے باوجود بازیاب نہ ہونا اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ، ہم ملک اور اداروں کے وفادار ضرور ہیں مگر سب سے پہلے اپنی جان ، عزت آبرو ، وقار کے وفادار ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں