روٹی

عبدالجبار چوہدری
گندم کے آٹے سے بنی ایسی چیز جو بھوک مٹانے کے کام آتی ہے اسے روٹی کہتے ہیں اس کی شکل کوئی بھی ہو سکتی ہے گول ،لمبوتری اور مخنی بھی ہر علاقے میں اس کو پکانے کے انداز مختلف ہوتے ہیں دیسی تندور میں پکی روٹی موٹی ہوتی ہے ہوٹل کے تندور پر پکی روٹی خستہ ہوتی ہے لوہے پر پکائی جانیوالی روٹی پتلی یا باریک ہوتی ہے روٹی وسیع معنوں میں استعمال ہوتی ہے مثلا فلاں جگہ روٹی پر بلایا گیا ہے یعنی دعوت و طعام ہے اگر شادی کے موقع پر روٹی پر بلایا جائے تو یہ اجتماعی دعوت کہلاتا ہے آپ نے روٹی ہمارے ہاں ہی کھانی ہے تو اس سے مراد کھانے کا اہتمام ہی ہوتا ہے روٹی پر بلایا عزت افزائی ہوتا ہے رات یا دوپہر کے کھانے کے وقت مہمان کی آمد ہو تو اسے روٹی کی دعوت ہی دی جاتی ہے اور یوں کہا جاتا ہے کہ روٹی کھا کر ہی جانا ہے آج تو آپکو روٹی کھائے بغیر جانے کی ہرگز اجازت نہیں ہے بعض لوگ خوب محنت کرتے ہیں دن رات کاوربار میں مصروف رہتے ہیں کئی کئی گھنٹوں کی مشقت کے بعد جب اس مصروفیت کی وجہ پوچھی جائے تو جواب یہی ہوتا ہے کہ روٹی کی خاطر ہی تو یہ سب کچھ کر رہے ہیں ایک آدمی جب تھک ہار کر گھر آتا ہے تو پسینہ خشک ہوتے ہی گھر والوں سے پہلا سوال روٹی کا ہوتا ہے کہ روٹی تیار ہے کہ نہیں بہت سے گھروں میں آج بھی مل بیٹھ کر کھانا کھانے کا رواج ہے اس کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں خاندان کی روٹی ایک ہی ہے یعنی ان میں اتفاق و اتحاد ہے ان کی روٹی ایک ہی چولہے پہ پکتی ہے یعنی سب اگٹھے ہیں ، جب ایک بے کار شخص کو ملامت کرنا مقصود ہو تو اسے بھی یہی کہا جاتا ہے کہ یہ مفت کی روٹیاں کی توڑتا ہے ایک آدمی کوئی کام نہ کرے اور کھانے پر بیٹھا ہو تو دوسرے گھر والے چاہے وہ سگے بہن بھائی ہی کیوں نہ ہوں تو وہ بھی پرائی روٹی توڑنے کا طنہ ہی دیتے ہیں جب کسی کو روزگار خاطر خواہ اجرت والا کام ملازمت مل جائے تو یہی کہا جاتا ہے کہ اس کی روٹی لگ گئی ہے اب فکر کی کوئی ضرورت نہیں سرکاری ملازمت مل جانے کی صورت میں بھی یہ کہا جاتا ہے کہ اب اس کی عمر بھر کی روٹی کا بندوبست ہو گیا ہے جب بہو گھر لانے کی باری آتی ہے تو بھی یہی کہا جاتا ہے جو ہم روکھی سوکھی روٹی کھائیں گے وہ یہ بھی کھاتی رہے گی یعنی بھوک سے دوچار نہیں ہو گی جب بہن بیٹی خدانخواستہ طلاق ،علیحدگی کی نوبت آجائے تو بھی حتمی الفاظ یہی ہوتے ہیں روٹی بہت ہے یعنی رزق کی فراوانی ہے جہاں سے ہم کھائیں گے وہیں سے یہ بھی کھاتی رہے گی ۔بہت سے محاوروں میں بھی روٹی کا ذکر آتا ہے’’ پیٹ نہ پئی روٹی تے سب گل کھوٹی ‘‘۔کسی نے بھوکے سے سوال کیا کہ دو جمع دو کتنے ہوتے ہیں تو اس کا جواب بھی یہی تھا چار روٹیاں۔بدقسمتی سے بچپن میں اگر کوئی کفالت کر ڈالے تو اس کا طعنہ دیتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ ہماری روٹی پہ پل کر اس نوبت تک پہنچے ہو اب تک تو ہماری داڑھوں میں ہماری دی گئی روٹی کے ذرے پھنسے ہوئے ہیں گداگر بھی روٹی کی صدا دیتے ہیں مدد تو زر ،دولت سے کی جاتی ہے مگر مطالبہ روٹی کا ہی ہو تا ہے ۔کسی کے گھر یا زمین پر قبضہ ہو جائے تو اس کی جمع پونجی کسی وجہ سے ہو جائے تو سب سے زیادہ فکر روٹی کی ہوتی ہے کہ اب روٹی کہاں سے کھائے گا کام سے نکالے جانے پر بھی روٹی کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ اس سے روٹی کا نوالہ مت چھینو وراثت میں جائیداد کاروبار چھوڑ کر اس جہاں سے رخصت ہوجانے والے کی تعریف کرتے ہوئے کہاجاتا ہے کہ وہ پسماندگان کے لیے روٹی کا بندوبست چھوڑ گیا ہے آج کل قومی افق پر ابھرتے وکلاء جو سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ پر وزیر اور سینٹر بن چکے ہیں ان جو جب عدالتی فیصلوں اور احکامات کا مذاق اڑانے پر توہین عدالت کا نوٹس ملے توان کی طرف سے دئیے گئے دلائل پر جو سب سے بڑی دلیل کارگر ثابت ہوئی وہ بھی روزی ،روٹی چھیننے کی دہائی تھی وکالت کا لائسنس منسوخی کے احکامات واپس لیکرو بالآ خران وکلاء کو معافی دینا پڑی اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم کسی کے بچوں سے روٹی چھیننا نہیں چاہتے

اپنا تبصرہ بھیجیں