روزہ کے طبی فوائد

رمضان عربی زبان کا لفظ ہے اور اس لفظ کا مادہ رمض (جس سے نکلا یا بنا) ہے اس مادے کے حروف کو مختلف صورتوں میں ترتیب دینے سے لفظ بدل جائے گا مگر معنی ایک ہی رہیں گے یہ تمام معنی ایک طرح کی شدت آگ گرمی یا مرض پر ہی دلالت کرتے ہیں اسی سے الرمضاء ہے جس کا معنی تپتی ہوئی زمین کے ہیں رمضان اس شدت کے معنی کا حامل ہے جو انسان کو روزے میں بھوک پیاس اور تھکن کی صورت میں برداشت کرنا پڑتی ہے رمضان کے مہینہ میں انسان ایک عمل کرتا ہے جس کو اردو میں روزہ اور عربی میں صوم کہتے ہیں صوم کا لغوی معنی بچنا، رُکنا، گفتگو سے پرہیز کرنے والا، خاموش، باز رہنا وغیرہ ہے اور روزہ دار وہ ہے جو اپنے آپ کو کھانے، پینے اور عمل مباشرت سے روکے جبکہ اصطلاحِ شریعت میں مسلمان کا بہ نیتِ عبادت طلوعِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور عملِ مباشرت سے رکے رہنا روزہ کہلاتا ہے جیسا کہ قرآن حکیم سے ثابت ہے وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ(البقرۃ، 2: 187)(روزہ رکھنے کے لئے سحری کے وقت) اور کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ تم پر صبح کا سفید ڈورا (رات کے) سیاہ ڈورے سے (الگ ہو کر) نمایاں ہو جائے پھر روزہ رات (کی آمد) تک پورا کرو) روزہ ایک ایسی مفید اور منفعت بخش عبادت ہے جس کی وجہ سے دنیا میں تقریباً تمام الہامی یا غیر الہامی ادیان میں روزے کا حکم موجود ہے الہامی ادیان کے حوالے سے قرآن کریم میں ہے کہ روزہ صرف امت محمدیہ پر ہی فرض نہیں ہوا بلکہ اسلام سے پہلے بھی دوسری امتوں پر روزہ فرض تھا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے(اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جاو (البقرۃ: ۱۸۳)اس آیت میں دو باتین بیان کی گئی ہیں ایک تو یہ کہ روزہ کوئی نئی عبادت نہیں ہے بلکہ گزشتہ امتوں پر بھی یہ عبادت فرض تھی دوسری بات یہ کہ روزہ کا مقصد محض بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے بلکہ تقوی حاصل کرنا ہے یہ آیت روزے کی فرضیت اور اہمیت کے سلسلے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور غیر الہامی مذاہب میں اگر ہندو مت‘سکھ مت‘بدھ مت کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی کسی نہ کسی صورت میں روزہ رکھتے ہیں جسے ورت کہتے ہیں جسے آپ نے اکثر انڈین میڈیا میں بھی سنا ھو گا اکثر عورتیں کہتی ہیں کہ میں کے گڑواہ چوتھ کا ورت رکھا ہوا ہے اس طرح وہ اپنے شوہر کی درازی عمر کے لیے روزہ رکھتی ہیں اسی طرح دیگر مواقع پر بھی رکھے جاتے ہیں انسان کے جسم کو اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے تھوڑی سی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم اپنی بے اعتدالی اور لالچ کی وجہ سے ضرورت سے کہیں زیادہ کھاتے اور پیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارے جسم میں ضرورت سے کہیں زیادہ طاقت حاصل ہوتی ہے اور استعمال کم جس کی وجہ سے غیر ضروری خوراک موٹاپے کا باعث بنتی ہے اور موٹاپا زائد چربی کی وجہ سے یہ زائد چربی ہمارے جسم کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے اس سے کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں روزہ جہاں شرعی اعتبارِ سے روحانی پاکیزگی اور ایمانی تقدس کا ضامن ہے وہیں طبی نقطہ نظر سے انسانی جسم اور صحت کے لئے ایک ایسا مفید نفع بخش عمل ہے جس کی کوئی دوسری نظیر نہیں ایک مہینے مسلسل روزے رکھنے والا انسان پورے سال کے لئے تندرست و توانا ہوجاتا ہے اور اس کا جسمانی و عضلاتی نظام مکمل طور پر درست ہوجاتا ہے معدے کی تکالیف اور اس کی بیماریاں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور نظامِ ہضم بہتر ہو جاتا ہے کیونکہ پور
ا سال مسلسل کام کی وجہ سے اس کی کارکردگی تھوڑی متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ہے لیکن ایک مہینہ کے آرام کے بعد معدہ گردوں اور آنتوں قوت بڑھ جاتی ہے روزہ شوگر لیول،کولیسٹرول اور بلڈ پریشر میں اِعْتِدال لاتا ہے اور اس کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے روزہ کی وجہ سے خون میں کمی ہوجاتی ہے اس سے دل کو آرام پہنچتا ہے اور شریانیں سکڑنے سے محفوظ رہتی ہیں کھانے میں وقفہ کی وجہ سے خون میں تمام اجزاء تحلیل ہو جاتے ہیں انہیں شریانوں پر جمنے کا موقع نہیں ملتا اس سے خون کا بھاو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہتا ہے جسمانی کھچاو‘ ذہنی تناؤ‘ڈپریشن اور نفسیاتی اَمْراض کا خاتمہ ہوتا ہے بھوک کی وجہ سے فاضل چربی گھٹنا شروع ہوتی ہے جس سے موٹاپے میں کمی واقع ہوتی اور اِضافی چربی ختم ہوجاتی بے اولاد خواتین کے ہاں اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں روزہ دار کے جسم میں دوسروں کی نسبت قوّتِ مدافَعت زیادہ ہوتی ہے آدمی بُرے خیالات سے دور رہتا ہے اور ذہن صاف رہتا ہے جگر کے ارد گرد جمع شدہ چربی کم ہوجاتی ہے کھال اور چھاتی کے کینسر کا خطرہ کم رہتا ہے اَعصابی اَمْراض میں بہتری آجاتی ہے اسی طرح سحری و افطاری کے وقت زیادہ پانی پینے کی وجہ سے گردے اور مثانہ صاف ہو جاتے ہیں اس کے علاؤہ بھی روزہ بے شمار روحانی و طبی فوائد کا حامل ہے اس لیے خود اور اپنی اولاد کو اس فریضے کی عادت ڈالیں اسے ڈرائیں نہیں بلکہ راغب کریں اللہ تعالیٰ ہماری عبادتوں کو شرف قبولیت فرمائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں