روبینہ شاہین‘کالم نگارو افسانہ نگار

روبینہ شاہین ایک جانی پہچانی لکھاری ہیں جو اخبارات میں کالم نگاری کرتی ہیں اور اپنی تحریر کے ذریعے مختلف معاشرتی پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔ کالم نگاری افسانہ نگاری اور ناول نگاری کے ساتھ وہ شاعری بھی کرتی ہیں۔ حال ہی میں ان کا ناول ”روز مرتے ہیں جینے کی آرزو میں“ شائع ہوا جو کہ انہوں نے راقم کو بھیجا ہے۔ اس ناول میں ایک ایسی عورت کا کردار پیش کیا ہے جو اکیلے ہی اپنے حالات سے جنگ لڑتی ہے اور حالات سے مقابلہ کر کے اپنی منزل مقصود پانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ عورتوں کے لئے یہ ناول مشعل راہ ہے۔ کوئی بھی ناول ہو اپنے معاشرے کی سچی تخلیق ہوتا ہے اگر کوئی ناول زندگی کا سچا شعور نہ دے وہ کچھ لوگوں کی پسند تو بن سکتا ہے جو رومانی مزاج کے حامل ہوں لیکن زندگی کو حقیقت سمجھنے والوں کے لئے دلچسپی کا باعث نہ ہوگا۔ روبینہ شاہین نے ناول ”روز مرتے ہیں جینے کی آرزو میں“ لکھ کر ادب میں اضافہ کیا ہے۔ روبینہ شاہین سے ناول نگاری اور شاعری کے حوالے سے ایک تفصیلی گفتگو ہوئی جو یہاں پیش کی جارہی ہے۔ میری پیدائش7ستمبر1985 ء کو پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ میں ہوئی جو کہ ایک چھوٹا لیکن صنعتی شہر ہے۔ میرا سارا بچپن گوجرانوالہ میں گزرا میں نے ابتدائی تعلیم بھی گوجر انوالہ کے سینٹ میری سکول سے حاصل کی۔ گریجویشن گورنمنٹ کالج برائے خواتین گوجرانوالہ سے مکمل کیا پھر گریجویشن کے آخری سال میری شادی ہو گئی اور شادی کے بعد میں نے پنجاب یونیورسٹی میں ماسٹرز میں داخلہ لے لیا۔

لاہور میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ میرے لئے یہ ایک بہت بڑے اعزاز کی بات تھی کہ میں نے شادی کے بعد بھی تعلیم جاری رکھی۔ مجھے بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ بچپن سے ہی میں نے کھلونوں کی جگہ صرف کتابیں پڑھی ہیں اور جب بھی بازار گئی اپنے لئے چند کتا بیں ضرور خریدتی اور مطالعہ کرتی رہتی تھی اور اس شوق کو مکمل کرنے میں میرے والد صاحب کا بہت ہاتھ تھا۔ وہ میرے اس شوق میں میرے ساتھ مکمل تعاون کرتے تھے اور مطالعہ کے لئے بھی مجھے وسیع ماحول فراہم کرتے۔ میری تعلیم و تربیت میں میرے والد صاحب کا بہت بڑا ہاتھ ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مجھے اعلیٰ تعلیم کا بہت شوق تھا تو انہوں نے مجھے باقاعدہ اس معاملے میں سپورٹ کیا۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی پھر بھی مجھے ہائی ایجو کیشن کی طرف مکمل ان کی حمایت رہی اور وہ خود بھی مجھے مختلف کتابیں لا کر دیتے تھے مطالعے کے لئے۔

یوں مطالعہ کرتے کرتے لکھنے کا بھی شوق پیدا ہو گیا اور میں نے فرسٹ ایئر میں اخبارات میں۔چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور کالم لکھنے شروع کئے۔ کالج لائف میں مجھے صرف لکھنے کا شوق تھا اور میں کالج میگزین اور اخبارات کے لئے کچھ نہ کچھ لکھتی رہتی تھی میں نے بہت سارے افسانے بھی لکھے اور وہ افسانے بہت پسند بھی کئے گئے ان میں ایک افسانہ جو بہت مشہور ہوا تھا تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں گے کبھی بہت مشہور ہوا۔ کالج کی لائف میں میں ایک اچھی مقررہ بھی رہ چکی ہوں اس کے علاوہ کالج کی انتظامیہ میں سیکرٹری اور صدر بھی رہ چکی ہوں اور تعلیمی میدان میں بہت سے انعامات حاصل کر چکی ہوں۔ شاعری کے میدان میں ماسٹرز کے بعد قدم جمائے جب بھی میں مشاعرے سنتی اور دیکھتی تو شعر میرے دل میں اترنے لگتے اور پھر شعر کہنے شروع کئے آہستہ آہستہ شاعری کے میدان میں قدم جما لئے۔ میری شاعر ی میں میری اردو کی پروفیسر صاحبہ کا بہت ہاتھ ہے وہ اکثر میری اصلاح کر دیا کرتی تھیں اور شاعری کیوزن اور رموز و اوقاف سمجھا دیا کرتی تھیں۔

میرا ناول”روز مرتے ہیں جینے کی آرزو میں“ تقریبا دو سال میں مکمل ہوا۔ یہ ایک موٹیویشنل ناول ہے جو ایک عورت کی زندگی پر لکھا گیا اس طرح سے کہ وہ اپنی زندگی کی جنگ کوکتنی طاقت سے لڑتی ہے اور کسی کے آگے ہار نہیں مانتی آخر میں وہ ایک کامیاب لکھاری بن جاتی ہے۔ میری کامیابی کے پیچھے سب سے پہلے تو میرے والد صاحب کا ہاتھ ہے جنہوں نے پچپن میں مجھے سپورٹ کیا اور پھر شادی کے بعد میرے خاوند کا جنہوں نے شادی کے بعد بھی میرے پڑھنے کے شوق کو کم نہیں ہونے دیا اور میری تعلیم جاری رکھی اور میرے قلم کے لکھنے کے شوق میں بھی میری مدد کی۔ میرے کالم ملک کے مختلف اخبارات میں شائع ہوتے ہیں قلم کی دنیا میں شاعری ایک وسیع میدان ہے۔

میری اصلاح میری پروفیسر صاحبہ جو اردو ادب پڑھاتی تھیں وہ کرتی رہیں پھر آہستہ آہستہ مجھے شاعری کے اتار چڑ ھاؤ کی سمجھ آنے لگ گئی۔ آپ کا تخیل کیا ہے؟کہ جواب میں انھوں نے کہا میراتخیل زیادہ تر محبت کے موضوع پر ہوتا ہے بے شک شاعری انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے جو دل کے جذبوں کو لفظوں کے کینوس پر اتارے جاتے ہیں۔ اب ہر شاعر کا جو تخیل ہوتا ہے وہ اسی کو اپنے لفظوں میں بیان کرتا ہے۔ مجھے قدرت سے محبت ہے اور میں اپنی شاعری کی صنف میں زیادہ تر محبت کے جذبات رکھتی ہوں۔
آنکھوں میں پھر وہ جذبہ الفت لئے ہوئے میری اداس زیست کے منظر میں آگیا
لبریز جذب عشق سے عالم میں شوق کے۔ دستک دیئے بغیر مرے گھر میں آگیا
دیکھا ہے اس نے نیم وا آنکھوں سے اس طرح آئینہ اس کو دیکھ کر چکر میں آ گیا
ملتے ہیں یہ وصال کے لمحے نصیب سے آیا خیال اس کو تو پل بھر میں آ گیاروبی خیال و خواب کی حد سے نکل کے وہ اشعار بن کے لفظوں کے پیکر میں آ گیا شاعری میں اوزن پیدا کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہیے کہ آپ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں اور شاعری کے اوزان کو سمجھیں اور اگر نہ سمجھ میں آئے تو کسی سے اصلاح لے لیں۔ میرا مجموعہ کلام خاموش سمندر انشاء اللہ بہت جلد آئے گا پوری کوشش ہے اس کو جلد ازجلد مکمل کرلوں۔ میرے گھر والے ادبی کاموں میں میری مکمل مدد کرتے ہیں مجھے ہر طرح کی سہولت فراہم کرتے ہیں

اور میرے کام کو سراہتے بھی ہیں۔ پروین شاکر کو میں بچپن سے سنتی آرہی ہوں۔ وہ نہ صرف ایک مکمل اور معروف شاعرہ تھیں بلکہ ایک اچھی اور خوبصورت شخصیت بھی تھیں۔ کسی کے کلام کو سننے اور دل میں اُتارنے کے لئے اُس کی شخصیت بہت اہمیت رکھتی ہے یہ اور بات ہے کہ پروین شاکر کی شاعری ان کی زندگی کی ایک لازوال حقیقت تھی اور اداسی اور خاموشی کا عکس پیش کرتی ہے لیکن ان کی شخصیت کا سحر شامل کریں تو مل کر بہت خوبصورت نظر آتی ہے۔ اردو ہماری قومی زبان ہے اس لئے ہر مضمون اردو میں ہی پڑھایا اور لکھا جاتا ہے پھر طالب علم جو پڑھیں گے اور لکھیں گے تو وہ اسی سے آشنا ہوں گے۔ ہر دفتر میں اردو زبان ہی رائج ہے۔ کیا آپ کے خیال میں کسی بھی ادبی گروہ سے وابستگی کے بغیر تخلیقی طور پر اپنی شناخت کر نا ممکن ہے اس معاشرے میں اکیلا انسان کچھ نہیں ہوتا ہمیشہ ٹیم ورک سے ہی تخلیقی کام انجام دیے جاتے ہیں اس لئے اگر ہم کسی ادبی گروپ سے منسلک ہو جاتے ہیں تو ہمیں اپنی پہچان بنانی آسان ہو جاتی ہے۔ یہ منحصر ہے اس گروپ کی کارگردگی پر کہ وہ کتنا تخلیقی گروپ ہے۔ ہر کامیابی کی ایک قیمت ہوتی ہے آپ کو خوشیوں کی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو بھی آج ہم ہوتے ہیں یہاں تک پہنچنے کے لئے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں

اور خوشیوں کی قیمت چکا کر اپنی منزل حاصل کرتے ہیں۔ ٹی وی ڈرامہ ابھی تک نہیں لکھا لیکن اگر مجھے آفر ہوئی تو ضرور انشاء اللہ لکھوں گی کیونکہ بہت سے مرکزی خیال میرے پاس محفوظ ہیں۔ معاشرے کی محبت ایک بہت وسیع موضوع ہے۔ معاشرے میں محبت ہے کہ نہیں پہلے تو یہ دیکھنا ہے پھر محبت کے موضوع پر بحث کی جاسکتی ہے لیکن میرا خیال کہ محبت معاشرے میں نہیں ہوتی اور نہ معاشرتی رشتوں میں ہوتی ہے محبت ایک ایسا جذبہ ہے جس کو ہمیں اپنے اندر تلاش کرناہے۔ محبت تو خدا کا وہ تخلیقی انعام ہے جو دل سے دل تک اثر رکھتا ہے۔یہ معاشرہ تو ہمارے جذبات سے جڑ کر تخلیق پاتا ہے۔ محبت بانٹیں گے تو محبت پائیں گے اور نفرت بانٹیں گے تو نفرت ملے گی۔ معاشرہ تو انسانی جذبوں سے تخلیق ہوتا ہے۔ معاشرے کی اصلاح ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتی صرف ہماری اصلاح ہمارے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی اصلاح پر تصور کرنا چا ہے کیونکہ ہمارے عمل اچھے ہوں گے تو ہمارے اردگرد کا ماحول اچھا ہو گا۔ آخر میں میرا پیغام ہے کہ مطالعہ کی عادت اپنائیں کتابیں پڑھا کریں کیونکہ ہمارے ماحول میں مطالعہ کرنے کی عادت ختم ہوگئی ہے اس لئے ہماری فکری اصلاح بھی کمزور ہوگئی ہے اور معاشرے میں غلط بگاڑ پیدا ہو گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں