روایتی کھیل”پٹولہ“کے نشانات مٹنے لگے‘عبدالجبار چوہدری کے قلم سے

سوئی دھاگے اور فالتو کپڑے یعنی (لیراں)سے بنائے گئے انسانی شکل کے کھلونے کو پٹولہ کہتے ہیں غربت کے دور میں جب وسائل اتنے نہ تھے کہ پلاسٹک،لوہے اور فیکٹریوں کے تیار شدہ کھلونے خریدے جا سکتے اس وقت بچے ہاتھوں سے یہ چیزیں تیارکرتے تھے استعمال کی ناکارہ چیزوں سے ایسے ایسے شاہکار بنائے جاتے کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی چھوٹے بچے خصوصا بیٹیاں پٹولہ تیار کر تی تھیں اور ان کو سجاتی سنوارتی تھیں یہ ہی نہیں بلکہ ان کی شادی کی رسومات ادا کی جاتی پٹولی پٹولے کی شادی کی مثال آج بھی دی جاتی ہے کھانے پکائے جاتے تھے مہندی کی رسم کی جاتی تھی بارات لائی جاتی تھی غرض کہ بعض و اوقات اس کی اتنی دھوم مچائی جاتی کہ سارے گاؤں کے بچے اس میں شریک ہوتے،بیٹیاں ان پٹولوں کو اتنا سنبھال کر رکھتی کہ جب ان کی اپنی شادی ہوتی تو ان کو ساتھ لے جانے کی ضد کرتی تھیں اگر کسی بیٹی کی کم عمری میں شادی ہو جاتی تو کہا جاتا کہ اس کی عمر تو ابھی پٹولے کھیلنے کی تھی،رنگ برنگے کپڑوں سے تیار یہ پٹولے بہت ہی خوبصورت لگتے وسائل کے مطابق ان کا سائز ہوتا پٹولے بنانے سنوارنے ان کی تقریبات کرنے کا سارا عمل بنانے والی بیٹی کے ذہن کا مرہون منت ہوتا کیوں کہ اسی کا ذہن جو سوچ اور سمجھ رہا ہوتا اسی طرح کے پٹولے تیار ہوتے تھے پہلے پہل نئی نویلی دلہن کو اس لیے دیکھنے لوگ آتے تھے کہ اس نے لباس کس طرح کا پہنا ہوا ہے لہنگا،گھونگھٹ،جھومر یہ سب دلہن کے لباس تھے پھر اس طرح پٹولہ دلہن بھی تیار کی جاتی تھی پٹولہ سے مر اد ہلکی پھلکی چیزبھی لی جاتی ہے عموما کم وزن،خوبصور ت اور نحیف جسم کو پٹولہ سے تشبیہ دی جاتی ہے اس کا ایک مطلب مصنوعی چیز بھی ہوتی ہے جو بے جان بے حس اور بے حرکت ہوتی ہے ہاتھ لگایا جائے تو پھول کی طرح لمس کا پتہ نہیں دیتی کلیوں کی طرح مسل نہیں سکتے اور خاص وقت کے بعد مر جھانے سے بھی قاصر ہوتا ہے ہمارے ہاں آج بھی پٹولہ سے مراد بہت سی چیزوں کو تشبیہہ دی جاتی ہے پٹولہ کی ترقی یافتہ شکل گڑیا بھی ہے الیکٹرونکس کی ترقی نے بولنے والی گڑیا بنا کر بھی حیران کر رکھا ہے پٹولہ چوں کہ اپنے ہاتھوں سے بنایا جاتا تھا اس لیے جذباتی وابستگی بھی ہوتی تھی کوئی نقصان پہنچائے تو دکھ ہوتا تھاپٹولہ بنانے میں ذاتی محنت لگی ہوتی اگر کوئی حوصلہ شکنی کرے تو برا بھی لگتا پٹولہ ذاتی اثاثہ،ملکیت ہوتی تھی جب یہ چوری ہوجائے تو باقاعدہ سوگ کی کیفیت ہوتی کھانا پینا چھوٹ جاتا آنکھوں سے آنسو بھی رواں ہوتے جوں جوں ترقی ہوتی گئی بچوں کے ہاتھوں میں آنے والی چیزیں بھی بدلتی گئی بچو ں کے ہاتھ میں پہلے ویڈیو گیم کے (Console)آئے ہر گلی محلے میں ویڈیو گیم کی دکانیں کھولی گئیں کمپیوٹر کے آنے سے صاحب حیثیت لوگوں نے گھروں کے اندر ویڈیوز لوڈ کر لیں،جدید موبائل کے آنے سے تو ہر ایک کے ہاتھ میں ہر وقت کھیل تماشہ آگیا نہ ہم عمر بچوں کو اگٹھا کرنے اور نہ محنت کی ضرورت بس بٹن دبا یا ہاتھ چلایا اور خود ہی ہنستے رہے بعض کھیل مقابلے کی صورت میں آگئے اور ایک سکرین پر دو آدمی بیٹھ کر کھیلنے لگے پٹولہ سے واقف ابھی کچھ لوگ باقی ہیں اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والے بچے شاید اس کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں اور آنے والی نسلوں کے لیے تو یہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ ہو پٹولہ بچپن کی ایک حقیقت کا نام ہے اور اس حقیقت سے جڑی داستانیں کبھی بھلائی نہیں جا سکتیں ماوں کے ہاتھوں سے بنے پٹولے بیٹیوں نے نشانی کے طور پر کئی کئی سال سنبھال رکھے ان کو دیکھ کر اپنی ماوں کو یاد کرتی تھیں ننھے ہاتھوں سے بننے والی چیزیں بے ضررہوتی ہیں اور معصوم ذہنوں کی تخلیق پٹولے بھی معصوم اوربے ضرر ہوتے تھے پٹولے کھیلنے کے دوران لڑائی جھگڑا اور فساد نہیں ہوتا تھا بلکہ خوشی ہوتی تھی جبکہ آج کل کے کھیل تماشے فساد کی بنیاد بنتے ہیں لڑائی جھگڑا قتل جیسی بھیانک واردات تک بات جا پہنچتی ہے ترقی یافتہ کھیلوں نے ہمارے سکون برباد کر رکھے ہیں،دولت کا ضیاع ہو رہا ہے وقت برباد ہو رہے ہیں نہ ذہنی سکون اور نہ جسمانی فائدہ حاصل ہوتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں