رمضان ریلیف پیکیج سے غیر مستحقین بھی مستفید

وزیراعلی پنجاب مریم نوازکی جانب سے رمضان المبارک کے موقع پر مستحقین کیلئے 30 ارب روپے کا رمضان ریلیف پیکیج کی تقسیم کاعمل تقریباً مکمل ہوچکا ہے صوبے بھر میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ خواتین وحضرات کے گھروں تک راشن بیگ پہنچائے جاچکے ہیں پیکج راشن بیگ میں 10 کلوگرام آٹا، دوکلو گرام چینی، گھی، بیسن اورچاول شامل تھے یہ رمضان پیکج وزیراعلی پنجاب کی جانب سے غریب گھرانوں کو رمضان المبارک میں ریلیف پہنچانے کی غرض سے ایک احسن اقدام ہے

اس راشن کی تقسیم کا فریضہ محکمہ مال کے عملے کے سپرد ہے جو انکی زیرنگرانی ہریونین کونسلز کی سطح پر قائم کردہ پوائنٹ پر تقسیم کیا گیا تاہم اسکے طریقہ کارمیں بہتری کی گنجائش موجود ہے نگہبان رمضان پیکیج کی تقسیم کے حوالے سے جو مستحقین کی فہرستیں تیار کی گئی ہیں وہ پرانی ہیں ان میں بعض افراد اسکے اہل نہیں ہیں کیونکہ وہ گھرانے خودکفیل ہیں لہذا انکے نام درج کر کے صحیح معنوں میں حقداروں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے فہرستوں میں بہت سے کھاتے پیتے گھرانوں کے ایسے افراد بھی شامل ہیں جوصاحب حثیت ہیں اور دوسروں کی مالی امداد کرنے کے قابل ہیں مگر انکے ناموں کا اندراج بھی غریبوں کی فہرست میں شامل
ہیں

وہ اپنے آپ کو مستحقین کی صفوں میں شامل کر رکھا ہے فرض کریں اگر سیاسی مصلحت کی بنا پرانکا نام غریبوں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا تب بھی وہ اخلاقی ذمہ داری نبھاتے ہوئے خود بخود اپنے اپکو اس پیکیچ سے الگ کر لیتے یا اگر وصول کر بھی لیا ہے تو کسی مستحق کو دے دیتے تاکہ کسی غریب کا بھلا ہو جاتا مگر یہ روایت ہمارے کلچر میں شامل نہیں ہے فہرستوں کو ترتیب دینے والوں کو چاہیے کہ ماضی میں مرتب کردہ ان فہرستوں پر نظر ثانی کریں گو ان فہرستوں میں ایسے ناموں کا
اندراج کیا گیا ہے جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ماضی میں بھی مالی امدادحاصل کرنے والوں میں شامل ہیں حکومت کو فہرستوں میں شامل خوشحال افراد کی سکروٹنی کرنی چاہیے

جنکو پچھلے ادوار میں بغیر تحقیق کے بے۔نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرستوں میں شامل کیا گیا ہے جبکہ وہ اس کے اہل نہیں ہیں حکومت سے اپیل ہے کہ ان غیرمستحقِ افراد سے ماضی میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی مد میں وصول کی جانے والی رقم کی بھی باز پرس ہونی چاہیے کیونکہ یہ رقم تو صرف غریب اور یتیم اور بیوہ اور بے سہارا خواتین کیلئے مختص کی جاتی ہے جنکی آمدنی کا کوئی معقول ذریعہ نہیں ہے دوسرا اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ ہرحکومت غریب گھرانوں کو ریلیف پہنچانے کے نام پر ایسے پروگرام صرف اپنے مخصوص سیاسی ورکرز کو فائدہ پہنچانے کیلئے شروع کرتی ہے اور جان بوجھ کر ایسے افراد اور گھرانوں کے ناموں کا اندراج کیاجاتا ہے

جنکی کسی بھی سیاسی پارٹی کیساتھ
وابستگی ہو اور انتخابات کے موقع پر ان فائدہ حاصل کرنے والے گھرانوں سے سیاسی سپورٹ کی مد میں ووٹ حاصل کیئے جاتا ہے جس سے وہ انکار بھی نہیں کرسکتے اگر تو بلاتفریق خالصتاً غریب گھرانوں اور مستحقین کیلئے ایسے ریلیف پیکیچز ترتیب دینا مقصود ہے تو پھر سیاسی مصالحت سے ہٹ کر صرف بیواؤں یتیموں اور بے سہارا افراد کے ناموں کا اندراج کیا جانا چاہیے اور اگر سیاسی فائدے کیلئے یہ سب کچھ کرنا ہے تو پھر اس موضوع پر بحث لاحاصل ہے تاہم مالی استطاعت رکھنے والوں کو کم از کم رمضان المبارک کے مہینے میں انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت حاصل شدہ نگہبان راشن غریب اور بے سہارہ خاندانوں میں تقسیم کر دینا چاہیے تھا کیونکہ اگر آپ مالی استطاعت رکھتے ہوئے اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں تو کسی مصلحت کے تحت غریبوں مسکینوں یایتیموں کو فراہم کی جانے والی امداد چاہے

وہ کسی بھی شکل میں وصول کرنے سے گریزکریں گو ماہ رمضان کے بابرکت مہینے میں صرف غریبوں کیلئے وزیراعلی پنجاب کیجانب سے راشن کی فراہمی ایک قابل ستائش عمل ہے مگر اسکی تقسیم میں شفافیت کا عنصر بنیادی نقطہ ہے ان ریلیف پیکیجز کے علاؤہ صوبائی حکومت کو صوبے بھر گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف بھی کارروائی عمل میں لانی چاہیے جو اس ماہ مقدسہ میں اشیاء خوردو نوش سمیت دیگر اشیائے ضروریہ ذخیرہ کر لیتے ہیں اور پھر رمضان کامہینہ شروع ہونے سے قبل قیمتیں کئی گنا
تک بڑھا دیتے ہیں۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کافی حد تک سنجیدہ دکھائی دیتی ہیں اور مہنگائی کے عالم میں عوام کی مشکلات سے بھی آگاہ ہیں حال ہی میں انہوں نے ڈسٹرکٹ اینڈمنسٹریشن اور پولیس کو واضع ہدایات جاری کی ہیں کہ وزیراعلی کے دورے کے موقع پر ٹریفک نہیں روکی جائیگی

اور ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھا جائے گا۔وزیراعلی کے دورے کے موقع پر دکانیں،مارکیٹس اور کسی بھی قسم کی کاروباری مصروفیت کو بند نہیں کیاجائیگا اور نہ ہی دورے کے موقع پرکارپٹس ٹینٹ یا کوئی اور غیرمعمولی انتظامات کیے جائیں گے ایسے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں گو وہ بطور وزیراعلی پنجاب تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے عوامی مشکلات کا ازالہ کرنے میں خاصی پرعزم دکھائی دے رہی ہیں تاہم انہیں اپنے احکامات کے عمل درآمد کے حوالے سے متعلقہ انتظامیہ پرچیک اینڈ بیلنس رکھنا انتہائی ضروری ہے ورنہ انکی کاوشوں کے ثمرات سے عام عوام محروم رہ جائیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں