رمضان المبارک میں وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں

گزرے سال کی طرح اس سال موسم بہار یعنی ماہ اپریل میں رمضان المبارک کا مقدس مہینہ شروع ہونے جارہا ہے تاہم ہمارے عزیزواقارب ہمسائے یا دور اور نزدیک کے آشنا افراد جو پچھلے رمضان المبارک میں تو ہم میں موجود تھے مگر اس سال ماہ رمضان سے قبل دنیا سے رخصت ہوکر انہوں نے زمین کی چادر اوڑھ لی ہے تاہم خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کو اپنی زندگی میں آنے والا ایک اور بابرکت مہینہ رمضان المبارک کی صورت میں نصیب ہوگا ہوسکتا ہے کہ اگلا رمضان ہمیں ملے نہ ملے جب رمضان المبارک آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو بھی زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس ماہ مقدسہ میں اپنی شرارتوں سے فرزندان توحید کو گناہ پر آمادہ نہ کر سکے اس مہینے میں مؤٍمن کا رزق اور نیکی کا ثواب بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس ماہ مبارکہ میں جس قدر ہوسکے نیکیوں میں پہل کریں روزہ نماز اور تراویح باقاعدگی سے ادا کریں عبادات کیساتھ بالخصوص مخیرحضرات کو یہ بات ہمیشہ ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جہاں بدنی عبادات سے اپنے رب کو راضی کریں وہاں مالی عبادات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں یعنی اپنی حلال کی کمائی میں سے غرباء مساکین اور بیواؤں کا بھی خاص خیال رکھیں اور انکی مالی مدد کرکے ان کا سہارا بنیں کیوں کہ رب کائنات اپنے ایسے بندوں کو محبوب رکھتا ہے جو اس کے بندوں کی حاجت روائی کرتے ہیں اگر ہم باہمی تعاون کے جذبہ کے تحت اپنے اردگرد مستحقین کی مالی مدد کریں تو ہمارا معاشرہ ہمدردی و بھائی چارے کی عالیشان مثال بن جائے اس ماہ مقدسہ میں دیہات کی نسبت شہروں میں مخیر حضرات اور فلاحی تنظیموں کیجانب سے سحری اور افطاری کے دسترخوان لگائے جاتے ہیں اور مستحقین میں راشن کی تقسیم کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے مگر دیہی سطح پر اس حوالے سے کوئی خاص انتظامات یا عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم شادی بیاہ کے موقعہ پر شرعی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اپنی عمر بھر کی جمع پونچی فرسودہ رسومات اور گانے بجانے کی بے ہودہ محفلوں پر پانی کی طرح بہا دیتے ہیں مگر اگر کوئی اڑوس پڑوس یا محلے میں انتہائی کسمپرسی یا غربت کی زندگی بسر کر رہا ہو تو انکی خبرگیری کرنا تو دور کی بات ہے ہم ان سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتے راقم کی صاحب ثروت افراد سے دردمندانہ اپیل ہے کہ وہ اس بابرکت مہینے میں بالخصوص اور عام دنوں میں بالعموم انسانیت کی خدمت کا بیڑہ اٹھا لیں جس سے رب کی خوشنودی حاصل ہو موجودہ مہنگائی کے عالم میں زرائع آمدن ہونے کے باوجود تنخواہ دار طبقہ مالی مشکلات سے دوچار ہے تو ذرا سوچیں کہ ایسے حالات میں بے سہارا بیواؤں‘ یتیموں پر کیا گزرتی ہوگی دیہات میں بہت سے ایسے گھرانے رہائش پذیر ہوتے ہیں جو مالی لحاظ سے مستحکم اور صاحب استطاعت ہوتے ہیں اگر وہ احساس کریں اور اپنے گاؤں کی حد تک مالی لحاظ سے کمزور چند گھرانوں کی کفالت کا بیڑہ اپنے ذمہ لے لیں تو یہ انکی خوش بختی ہوگی مگر عملا” ایسا ہوتا نہیں تاہم اگر وہ صرف ماہ رمضان میں ہی ان گھرانوں میں مہینے بھر کا راشن فراہم کردیں تو یہ عمل بھی بارگاہ الہی میں انکے لیے باعث مغفرت اور کئی گنا اجروثواب کا باعث بن سکتا ہے آپ نے اکثراوقات دیکھا ہوگا کہ آج کل پیشہ ور بھکاری بھیس بدل کر سرگرم ہیں بالخصوص کلرسیداں کے گردونواح میں ہرسال ایک مخصوص گروہ وزٹ کرتا ہے جو مختلف دیہات کی مساجد میں بلا خوف وخطر داخل ہوکر لوڈاسپیکر آن ائیر کرکے اعلانات شروع کردیتے ہیں کبھی وہ سیلاب کا بہانہ کرتے ہیں کہ ہمارے گھر تباہ ہوگئے اور مال مویشی پانی میں بہہ گئے تو کبھی کہتے ہیں مکان کی چھت گر گئی ہے اور کبھی جوان بیٹیوں کی شادی کا ڈرامہ رچاتے ہیں تو کبھی سربراہ خاندان کی کسی ٹریفک حادثے میں موت کی خبر سنا کر اسپیکر میں زور زور سے رونا دھونا شروع کردیتے ہیں اور جہاں تک انکی آواز جاتی ہے وہاں کے لوگوں اور بالخصوص خواتین کے دل میں انکے لیے ہمدردیاں پیدا ہوتی ہیں وہ اپنے مخصوص طریقہ واردات کا استعمال کرتے ہوئے ہر سال کئی دیہاتوں سے مسجد کا پلیٹ فورم استعمال کرتے ہوئے اچھی خاصی رقم بٹور کر رفو چکر ہوجاتے ہیں جب کوئی انکو پیسے دیتا ہے تو لوڈاسپیکر میں بار بار اسکا نام دہراتے ہیں کہ فلاں شخص نے اتنے پیسے دیے ہیں یہ سن کر گاؤں کے دیگر افراد بھی مچل جاتے ہیں اور بچوں کے ہاتھ مسجد میں پیسے بھیجنا شروع کردیتے ہیں تاکہ انکے نام کی بھی لوڈاسپیکر کے ذریعے تشہیر ہو آپ ایک اجنبی گروہ کے کارندوں کو جنکی زندگی کے پس منظر کے بارے میں آپ کچھ نہیں جانتے وہ آپ سے بڑی ہوشیاری کیساتھ پیسے بٹور کر لے جاتے ہیں مگر اگر آپکے محلے پڑوس یا رشتہ داروں میں سے کوئی حاجت مند یا بیمار ہو یا مالی پریشانی کے باعث تنگدستی میں مبتلا ہو تو مالی مدد تو درکنار ہم پلٹ کربھی انکی طرف دیکھنا پسند نہیں کرتے یہ کہاں کا انصاف ہے ان پیشہ ور فراڈیوں کو پیسے دینے سے تو بہتر ہے کہ ان مستحقین کی مالی مدد کیجائے جو حقیقی معنوں میں اسکے حقدار ہیں یاد رکھیں جس نے آپکو مال ودولت سے نوازا ہے اور طرح طرح کی نعمتیں عطا کی ہیں اگر عطا کیے ہوئے مال سے تھوڑی سی انسانیت کی خدمت ہوجائے تو اس میں کیا مضحیکہ ہے میری نوجوانوں سے اپیل ہے کہ وہ بالخصوص رمضان المبارک کے مہینے میں مستحقین کی مالی مدد یا راشن کی صورت میں امداد فراہم کرنے کے لیے فوری طور پر اپنے اپنے گاؤں میں تنظیم سازی کریں مخیرحضرات سے رابطے تیز کر دیں اور اجتماعی طور پر مل کر ان بیواؤں یتیموں اور ضرورت مندوں کی نشاندہی کریں اور فنڈز کی دستیابی پر راشن کے پیکٹ ان غریب گھرانوں کے گھروں تک پہچائیں یقین کریں کہ آپکا مخلوق خدا کیساتھ یہ طرز عمل اور نیک برتاؤ نہ صرف آپکو دنیا وآخرت میں بڑا فائدہ دے گا بلکہ آپکو سکون قلب بھی نصیب ہوگا۔ موجودہ نفسا نفسی کے عالم میں نماز روزہ اور دیگر بدنی عبادات میں لغزش اور سستی کا عنصر ہر لمحہ موجود رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسان محض اپنے اعمال کی بنا پر نہیں بلکہ روز محشر میں اللہ تعالی کی رحمت اور بخشش کا طلب گار ہو گا۔رمضان المبارک کامہینہ رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال ہوکر گناہوں سے نجات کے لیے آپکے دروازے پر دستک دے رہا ہے ہمیں اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر رب کائنات سے گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرنے کا ایک نادر موقعہ فراہم کرتا ہے لہذا دکھی انسانیت کی خدمت کرکے نیکیاں سمیٹنے کی کوشش کریں ہوسکتا ہے کہ اگلے سال آپکو یہ سب کچھ کرنے کا موقعہ نہ ملے معاشرے میں ایسے طبقات موجود ہیں جو حاجت مند ضرور ہیں مگر سفید پوشی کی بنا پر کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے جو غریبی اور تنگدستی کے شکار ہیں جو مشکل سے دو وقت کے کھانے کا انتظام بھی نہیں کر پاتے لہذا رمضان المبارک کے اس مقدس مہینہ میں مخیر حضرات کے علاوہ ہم سب کی یہ دینی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ایسے غریب گھرانوں کی حتیٰ المقدور راشن یا مالی امداد کی صورت میں انکی مدد کریں تاکہ وہ بھی سحروافطار کرسکیں یاد رکھیں خدمت خلق ہی عین عبادت ہے اگر آپ صاحب استطاعت ہیں تو اپنی حلال کی کمائی سے مستحقین کی مالی مدد ضرور کریں یہی ایک آسان عمل ہے جسکے زریعے ہم دنیا وآخرت میں اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں درحقیقت اصل زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں