رمضان المبارک حاجت روائی کا مہینہ

رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہوچکا ہے اس بابرکت مہینے کی آمد پر تمام اہل اسلام کو مبارکباد رمضان المبارک کا مہینہ نعمتیں، برکتیں اور رحمتیں اپنے ساتھ لاتا ہے مگر اسکی ساعتیں بڑی مختصر ہوتی ہیں یہ دنوں پر مشتمل ہوتا ہے یہ مہینہ انسانیت کے مابین ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے بالخصوص ان مالداروں کے لیے یہ بابرکت مہینہ کسی نعمت سے کم نہیں جو اس مہینے میں غرباً،یتیم اور مساکین کی مالی امداد میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے وہ اسی مال سے مخلوقِ خدا کی حاجت روائی کرتے ہیں جو خدا انہیں عطا کرتا ہے اس مہینے میں عبادات کیساتھ بیواؤں، یتیمیوں اور غریبوں پر خرچ کرنا بھی بڑا اجر وثواب ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اردگرد میں بسنے والے غربا پر نظر رکھیں اور کم از کم رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں انکی ضروریات زندگی کو پورے کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں موجودہ حالات میں ملک کے اندر ایک مہنگائی کا طوفان امڈ آیا ہے تاہم رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ آتے ہی ہمارے ملک میں اشیائے خوردونوش کے دام اور بھی بڑھ جاتے ہیں ذخیرہ اندوزی عروج پر ہوتی ہے دولت کی ہوس میں روپے پیسے کا لالچ اسقدر بڑھ جاتا ہے کہ ہم اخلاقیات کی بھی تمام حدیں پار کر جاتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مالی استطاعت رکھنے کے باوجود بھی ہمیں مستحقین کی مدد نصیب نہیں ہوتی اور ہم رمضان المبارک کی حقیقی فیوض وبرکات سے محروم رہ جاتے ہیں‘انسان ساری عمر اپنے اور اپنے اہل وعیال کی آسائشوں کے لیے دن رات ایک کرتا ہے وہ دولت کی رنگینیوں میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ مالی لحاظ سے کمزور اپنے رشتہ داروں اور اردگرد کے غرباء ومساکین کو بھی بھول جاتا ہے گو عبادات کا اجرو ثواب اپنی جگہ مگر مخلوق خدا کی خبر گیری کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا مقبول عمل ہے اس تحریر کی وساطت سے صاحب ثروت طبقے سے اپیل ہے کہ وہ اپنے اردگرد رہائش پذیر مستحق گھرانوں کے لیے راشن کی فراہمی یقینی بنائیں گو ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے درد دل رکھنے والی شخصیات موجود ہیں جو اس بابرکت مہینے میں بڑھ چڑھ کر مستحقین کی مالی اور راشن کی صورت میں بھی مدد کرتے ہیں تاہم انکی تعداد مالداروں میں کافی کم ہے اگر ہم اپنے رشتہ داروں اور اپنے اڑوس پڑوس میں بسنے والے غریب گھرانوں کی ضروریات کا خیال رکھیں تو شاید انہیں سحروافطار کرنے میں آسانی ہو‘ رمضان المبارک میں پیشہ ور گدا گروں کی گشت کا بھی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور ہم دکھلاوے کے لیے سب کے سامنے ان غیر مستحق اور پیشہ ور بھکاریوں کو تو کچھ نہ کچھ دے دیتے ہیں مگر ہمارے پڑوس میں رہائش پذیر حاجت مند خاندانوں کو ہمیشہ بھول جاتے ہیں تاہم یہ بات کافی حوصلہ افزا ہے کہ بعض مخیر حضرات اور نوجوان مل کر رمضان کی آمد پر راشن کی تقسیم میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں تاہم یہ صرف اور صرف رمضان کے مہینے کی حد تک ہوتا ہے اگر سب مل کر اسے ایک فلاحی تنظیم میں تبدیل کردیں اور بالخصوص صاحب ثروت طبقات اس میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں تو غریب گھرانوں کے چولہے کبھی ٹھنڈے نہیں پڑیں مگر شرط یہ ہے اس کام میں کسی قسم کا دکھلاوا نہ ہو،معاشرہ میں معاشی طور پر پریشان حال اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنے سے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے اسلامی تعلیمات اس حق میں نہیں کہ صاحب ثروت آدمی خود تو عیش و عشرت کی زندگی گزارے اور اس کا پڑوسی فاقے برداشت کرے۔خود تو قیمتی لباس زیب تن کرے لیکن پڑوسی کے پاس بدن کو ڈھانپنے کے لئے دو کپڑے بھی میسر نہ ہوں خود تو عالیشان مکانوں میں رہے لیکن پڑوسی کے پاس سر چھپانے کے لئے تنکوں کی جھونپڑی بھی میسر نہ ہو جب خدا تعالیٰ نے آپ کو خوشحالی اور مال و دولت اور ہر طرح کی نعمتوں سے نوازا ہے تو اس حلال مال سے اللہ کی مخلوق کی خدمت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب ترین انسان وہ ہے جو اس کی مخلوق کی خدمت، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی کفالت اور سرپرستی کرنے میں سعی کرتا ہے اس مقدس مہینہ میں اللہ کے عطا کیے ہوئے حلال مال سے غریب، مسکین، یتیم بیواؤں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے خصوصاً جب اپنے کنبے کے لئے اشیائے خوردونوش کا سامان خریدیں تو اڑوس پڑوس محلے غریب اور مسکین افراد کے لیے بھی پیکٹ بنوا لیں اور رازداری کیساتھ انکی دہلیز تک پہنچا دیں تاکہ وہ بھی اس بابرکت مہینے میں روزے رکھ سکیں اور انہیں فکرمعاش کی کوئی پریشانی لاحق نہ ہو,یہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے اس دنیا میں کیے جانے والے اچھے اعمال آخرت میں آپکی بخشش کا وسیلہ بنیں گے کیونکہ اصل زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں