رفعت وحید کی شاعری

رفعت وحید کی شاعری میں نے بار ہا پڑھی اور سُنی مگر”اکھراں پیڑاں بوئیاں“ کا نام ہی سُن کر دل ڈوبتا رہا۔پھر ایسا موقع آیا کہ گوجرخان کے ایک مشاعرے میں مجھے مہمان اعزاز کے طور پر بُلایا گیا اور وہ محفل اسی کتاب اسی پنجابی شعری مجموعے اکھراں پیڑاں بوئیاں کی تقریب رونمائی کی خوبصورت اور خونی رشتوں کی یاد دلا دینے والی اور دل موہ لینے والی ایک نئے انداز کی جاتی ہوئی شامی محفل تھی۔ رفعت وحید نے مجھے اپنا پنجابی مجموعہ کلام اس محفل کے بعد نوازا۔اور کھانے سے پہلے اُس انتظار کے دوران میں نے اُسے پڑھنا شروع کیا تودل نے چاہا کے کھانا گھنٹوں بعد ہمارے سامنے آئے۔ اس شاعری کا ایک ایک لفظ اور خوبصورت بحر یں دل کے اندر اور میری رگ رگ میں زندگی کے معانی کو ایک نئے انداز میں تشریح کرتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اُس میں، میں تھا اور میرے پاس شاہد جمیل تھا کہ جو میرے دل سے ادا ہونے والے اشعار سُن رہاتھا۔ میں نے بار بار ایک شعر پڑھ کر آگے جانے یعنی دوسرا شعر پڑھنے کی کوشش کی مگر شاہد جمیل نے مجھے بار بار روکا کہ اسے پڑھ کر آگے جاؤ مگر شاہد کے اس حُکم کو میں ایک درخواست سمجھ کر قبول کرتا رہا کیونکہ شاہد اور میں واقعی وہ شعر بار بار سننا چاہ رہے تھے جس نے پوری کتاب کو اپنی مٹھی میں بند کر کے رکھا ہوا تھا۔ وہ شعر یہ تھا۔
جہڑے پاسے پاسا پرتاں توں ای دسدا مینوں
ایس دا مطلب تیرا چیتا میرے نال اے رہندا
یہ شعر پڑھتے ہی میں جان گیا تھا کہ یہ شعر کیوں، کس کے لیئے اور کب لکھا گیا۔ در اصل ہوا یوں کہ کئی برس قبل جب میری سب سے پہلی ملاقات رفعت وحید سے ہوئی اوران کی خوبصورت شاعری اور بہترین انداز مجھے بہت اچھالگا۔ اُس مشاعرے کے بعد میں نے رفعت وحید سے ایک سوال کیا۔ اُس سوال کے جواب نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور یوں لگا کہ جیسے یک دم زلزلہ آ گیا ہواور اپنے سائیڈ ایفیکٹس کے ساتھ فوراََ پلٹ گیا ہو۔ مگر یاد رہے وہ زلزلہ توگزر گیا مگراپنے سائیڈ ایفیکٹس یعنی آفٹر ایفیکٹس آج بھی اپنی کارگردگی دکھا رہے ہیں اور میں رفعت وحیدکو دیکھتے ہی ان کی زد میں آ جاتا ہوں۔ آپ سب کو یقینا اس کے جواب کا انتظار ہو گا۔ تو جناب رفعت کی پرنم آنکھوں نے میری طرف دیکھا اور ڈگمگاتی ہوئی آواز میں ایک جواب ایک چھوٹے سے جملے کی صورت میں میرے کانوں کو اور دل و دماغ کو چیرتا ہوادوسری جانب جانے یا نکلنے کی بجائے میرے دوسرے کان میں اور دماغ کے آخری کونے میں رُک گیا۔ وہ جملہ یہ تھا۔ ”میں عبداللہ کے ساتھ ہوتی ہوں“۔ بس یہ کہنے کی دیر تھی کے رفعت کہ آنسوؤں نے ندی کی سی روانی اختیار کر لی اور میں بھی چُپ سادھ گیا۔ میں نے کہا عبداللہ آپ کا بیٹا ہے۔ تو کہنے لگی جی ہاں۔ پھر میں نے پوچھا اس میں پلکیں بھگونے والی کیا بات ہے۔ رفعت کا جواب یہ تھا”میری زندگی عبداللہ کے اردگرد گھومتی ہے۔ میرا پُتر پیدائشی معذور ہے“۔پھر اس کے بعد رفعت بول نہ پائی۔ اور میں بھی خاموشی سے اُن کی شاعری کو عبداللہ کیساتھ ملاتا رہا اور آج تک جوڑتا رہا ہوں۔ بڑی خوبصورتی سے اُن کی شاعری عبداللہ کو گلے لگاتی ہے۔ میں اسی میں خوش ہو جاتا ہوں کہ میری اور اُن کی شاعری کی سوچ کتنی ملتی جلتی ہے اور کتنے اتفاق سے اتحاد کے بندھن میں بندھ رہی ہے۔ آپ اس کتاب کے چڑھاوے (انتساب) ہی کو دیکھ لیں۔
اپنی حیاتی دے سپر ہیرو نگھے پتر
جنتاں دے واسی!
تے اکھ دا چانن عبداللہ(مرحوم) دے ناں
اس انتساب کے بالکل نیچے وہی شعر لکھا ہے
جہڑے پاسے پاسا پرتاں توں ای دسدا مینوں
ایس دا مطلب تیرا چیتا میرے نال اے رہندا
رفعت کی ساری کی ساری شاعری اس شعر کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔ اب اسے کوئی جیسے بھی محسوس کرے یہ اس کی مرضی۔رفعت کی شاعری ایسے محسوس ہوتی ہے جیسے میاں محمد بخش کی سیف الملوک اس میں رقض کر رہی ہو یا ر فعت کی شاعری سیف المکوک میں بھنگڑے ڈال رہی ہو۔ مگر ان بھنگڑوں میں دکھ، قہر، درد اور زندگی کی تلخیاں جا بجا کونوں کھدروں میں روتی ہوئی کسی کی تلاش میں ہوں۔شعر ملاخظہ فرمائیں۔
جد سی سنیا تسے موئے کربل وچ
اصغر ؑ تے، شبیر ؑ تے اتھرو پھُٹد ے رے
زندگی کے معانی کی اصل عکاسی اور بہترین تشریح رفعت کی شاعری میں جا بجا نظر آتی ہے۔
انھے لوکی ربّ نوں چھڈ کے بندے پوجی جاندے نیں
جندے! پباں بھار کھلو کے ویکھ تماشے دُنیا دے
رفعت نے اپنی زندگی میں قدرت کے وہ کرشمے دکھائے کہ انسان ششدر ہو کہ رہ جاتا ہے۔ حالانکہ آج کے انسان کی زندگی بہت کم عشروں پر محیط ہے۔ بعض افراد کے لیئے یہ زندگی بس اذان اور نماز کے درمیان کی زندگی ہے مگر بعض افراد اس دورانیئے میں ہزاروں برس جی جاتے ہیں۔ رفعت کی زندگی ایسی ہی ہے۔س ایک اور جگہ کیا خوب کہا آپ نے۔ دراصل کچھ تحریریں خون کی روشنائی سے تحریر کی جاتی ہیں جنہیں سات سمندروں کا پانی بھی مٹا نہیں سکتا۔
رفعت کل بازار تماشا تکیا سی
عزتاں والی لیر تے اتھرو پھُٹد ے رے
مزید آگے دیکھیئے اور سوچئیے۔
دھرتی نوں میں سر تے چاکے
اک لت تے کئی سال کھلوتی
در اصل رفعت کی دھرتی اُس کی کل کائنات اس کا بیٹا عبداللہ ہی تو تھا۔ کہ جب میں نے ایک تقریب میں اپنی تقریر کے دورران اُن سے پہلی ملاقات کا ذکر کیا تو رفعت اوراُن کے شوہر وحیدبھری محفل میں رو پڑے اور میں بھی۔رفعت وحید آپ کی شاعری اور تحریریں کسی انسان کو اپنے اصل مقام کی طرف لانے میں بہترین کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ کے قلم سے پروئے جانے والی لفظوں کی مالاؤں کو ادب کے میدان کے تمام شہ سواروں کا سلام۔ خوش رہیں اور ایسے ہی معاشرے کی فلاح و بہبود میں اپنا حصہ ڈالتی رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں