رشوت

رشوت ایک ایسی برائی ہے جس کے بُرا ہونے پر ساری دُنیا متفق ہے۔ حد یہ ہے کہ جو لوگ دن کے وقت دفتروں میں بیٹھ کر بڑے دھڑلے سے رشوت کا لین دین کرتے ہیں، وہ بھی جب شام کو کسی محفل میں معاشرے کی خرابیوں پر تبصرہ کرتے ہیں، تو ان کی زبان پر سب سے پہلے رشوت کی گرم بازاری ہی کا شکوہ آتا ہے۔ اور اس کی تائید میں وہ اپنے رفقائے کار کے دو چار وا قعات سنا دیتے ہیں، سننے والے یا تو ان واقعات پر ہنسی مذاق میں کچھ فقرے چست کر دیتے ہیں، یا پھر کوئی بہت سنجیدہ محفل ہو تو غم و غصہ کا اظہار کر دیتے ہیں، لیکن آگلی صبح سے یہی شرکائے مجلس پورے اظمینان کے ساتھ اسی کاروبار میں مشغول ہو جاتے ہیں، غرض رشوت کی خرابیوں سے پوری طرح متفق ہونے کے باوجود کوئی شخص جو اس انسانیت سوز حرکت کا عادی ہو چکا ہو اسے چھوڑنے کے لیے تیار نظر نہیں آتاگویا ان کے نزدیک رشوت چھوڑنے کی شرط یہ ہے کہ دوسرے تمام لوگ اس برائی سے تائب ہو جائیں تب ہی چھوڑنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ لہذا یہ تباہ کن بیماری ایک وبائی شکل اخیتار کر چکی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک استدلال نہیں بلکہ ایک بہانہ ہے ۔ اور بات صرف یہ ہے کہ رشوت لینے والے کو فوری طورسے کافی فائدہ ہوتا نظر آتا ہے۔ اس لیے وہ اس فائدے کو حاصل کرنے کے لیے ہزاروں حیلے بہانے تراش لیتا ہے۔ لیکن ذرا سوچو کہ رشوت لینے میں واقعتا کوئی فائدہ بھی نہیں؟ بظاہر تو رشوت لینے میں یہ کھلا فائدہ نظر آتا ہے کہ ایک شخص کی آمدنی کسی زائد محنت کے بغیر بڑھتی جاتی ہے، لیکن اگر ذرا باریک بینی سے کام لیا جائے تو اس وقتی فائدے کی مثال ایسی ہے۔ جیسے ایک ٹی بی میں مبتلا بچے کو چٹ پٹی غذاؤں میں بڑا لطف آتا ہے، لیکن بچے کے والدین یا اس کے معالج جانتے ہیں کہ یہ چند لحموں کا فائدہ نہ صرف اس کی تندرستی کو دور کر دے گا۔ بلکہ انجام کارا سے زیادہ طویل عرصہ تک لذیذ غذاؤں سے محروم ہونا پڑے گا۔ یہ مثال صرف رشوت کے آخروی نقصانات پر ہیں، صادق نہیں آتی بلکہ رشوت دنیوی نقصانات کے بارے میں بھی اتنی ہی سچی ہے ۔ جب معاشرے میں یہ لعنت پھیل جاتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے ۔ کہ ایک شخص کسی ایک جگہ سے کوئی رشوت وصول کرتا ہے تو اسے بیسوں جگہ خود رشوت دینی پڑتی ہے۔ بظاہر تو ممکن ہے کہ اسے خود دوسرے لوگوں سے کام پڑے گا تو یہ سوروپے نہ جانے کتنے سو ہو کر خود اس کی جیب سے نکل جائیں گے۔ رشوت کی بدولت پورا معاشرہ بد امنی اور بے چینی کا جہنم بن چکا ہے۔ جس جگہ رشوت کا بازار گرم ہو وہاں بہتر سے بہتر قانون بھی بالکل مفلوج اور ناکارہ بن کر رہ جاتا ہے۔ چوری ڈاکے قتل اغواء ،دہشت گردی، بدرکاری دھوکہ فریب کے انسانیت کشی حادثات سے آج ہر شخص سہما ہوا ہے۔ ہم نے اگر کسی مجرم سے رشوت لے کر اس کو قانون کی گرفت سے بچا لیا تو درحقیقت ہم نے جُرم کی اہمیت ، قانون کے احترام و سزا کی یقین کو دلوں سے نکالنے میں مدد دی ہے۔ اور ان مجرموں کا حوصلہ بڑھایا ہے۔
جو کل ہمارے گھر پر ڈاکہ ڈال سکتے ہیں، ایک سرکاری افسر کسی سرکاری ٹھیکدار سے رشوت لے کر اس کے ناقص تعمیری کام کو منظور کر ا دیتا ہے ۔ اور ممکن ہے کہ آج اس کی آمدنی زیادہ ہوگی ہو ۔ لیکن وہ یہ نہیں سوچتا کہ جس ناقص پل کی تعمیر اس نے منظور کرائی ہے کل جب وہ پُل گرے گاتو اس کی زد میں خود وہ اور اسکے بچے بھی آسکتے ہیں حدیث پاکؐ ہے کہ رسول اللہ ؐ نے رشوت دینے والے پر بھی اور رشوت لینے والے پر بھی لعنت بھیجی ہے ذرا غور کریں کہ جس ذات اقدس ؐ نے دشمنوں کے حق میں بھی دعائے خیر ہی کی ہو اس ذا ت اقدس ؐ کا کسی شخص پر لعنت بھیجنا کوئی معمولی بات نہیں اسکا اثر آخرت میں تو ضرور ظاہر ہوگا لیکن دنیا میں بھی یہ لوگ اس لعنت کے اثر سے نہیں بچ سکتے چنانچہ جو لوگ معاشرے کو تباہی کے راستے پر ڈال کر حق داروں کا دل دکھا کر غریبوں یتیموں کا حق چھین کر اور ملت کی کشتی میں سوراخ کر کے رشوت لیتے ہین بظاہر انکی آمدنی میں خواہ کتنا اضافہ ہوتا ہو لیکن خوشحالی اور راحت و آسائش روپے پیسے کے ڈھیر ‘عالیشان کو ٹھیوں‘ شاندارکاروں ‘محلات اور اعلیٰ فرنیچر کا نام نہیں ہے بلکہ دل کے اس سکون اور روح کے اس قرار اور ضمیر کے اس اطمینان کا نا م ہے جسے کسی بازار سے کوئی بڑی قیمت دے کر بھی نہیں خرید ا جاسکتا جب اللہ تعالیٰ کسی کو یہ دولت دیتا ہے تو ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے‘کھجورکی چٹائی اور ساگ چٹنی روٹی میں بھی دے دیتا ہے آج اگر آپ کو رشوت کے ذریعے کچھ زائد آمدنی ہوگئی ہے لیکن ساتھ ہی کوئی بچہ بیمار پڑگیا ہے تو کیا یہ زائد آمدنی آپ کو کو ئی سکون دے سکے گی؟ آپ کی ماہانہ آمدنی کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے لیکن اگر اسی تناسب سے گھر میں ڈاکٹر اور دوا ئیں آنے لگی ہیں تو آپ کو کیا ملا؟اگر فرض کریں کہ رشوت کے روپے سے آپ نے تجوریاں بھر لیں لیکن اولاد نے باغی ہوکر زندگی اجیرن بنا دی واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلمان اللہ اور رسول پاکؐ کے احکام سے باغی ہوکر روپیہ تو جمع کرسکتا ہے لیکن اس روپے کے ذریعے راحت و سکون حاصل کرنا اس کے بس کی بات نہیں حرام طریقے سے کمائی ہوئی دولت پریشانیوں اور آفتوں کا ایسا چکر لے کر آتی ہے جو عمر بھر انسان کو گردش میں رکھتا ہے رشوت خوروں کے اونچے مکان اور شاندار سازوسامان دیکھ کر اس دھوکے میں نہ آنا چاہیے کہ انہوں نے خوشحالی حاصل کر لی بلکہ انکی اندورنی زندگی میں جھانک کر دیکھیئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بیشتر افراد کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا ہیں اسکے برعکس جو لوگ حرام سے اجتناب کر کے حلال رزق پر قناعت کرتے ہیں یہی لوگ دنیا میں بھی فائدے میں رہتے ہیں انکی اوقات اور کاموں میں برکت ہوتی ہے اور وہ دل کے سکون اور ضمیر کے اطمینان کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں