راولپنڈی میں تجاوزات کے مسئلے کی شدت سے بھلا کون آگاہ نہیں۔ شہر اور گرد و نواح میں مستقل اور عارضی تجاوزات کی اس قدر بھرمار ہو چکی ہے کہ فٹ پاتھ پر چلنا اور سڑکوں پر سفر کرنا محال ہو چکا ہے۔ جس کا بس چلتا ہے اپنی دکان کے آگے فٹ پاتھ پر اور سڑک کنارے اپنا کاروبار سجا کر بیٹھ جاتا ہے جس سے مختلف قسم کے مسائل جنم لیتے ہیں۔ غوثِ اعظم روڈ، گرجا روڈ اور اس کے اطراف میں تو اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ہوٹلوں اور ریستوران کے مالکان ایک دکان میں اپنا سامان رکھ کر کاروبار شروع کرتے ہیں جبکہ سڑک کنارے فٹ ہاتھ پر کرسیاں اور میز رکھ کر گاہکوں کو بھگتانے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ راولپنڈی شہر کے اس خطے میں انتظامیہ و دیگر سرکاری ادارے وقتاً فوقتاً ان تجاوزات کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہیں‘ چند ریڑھیوں کو اٹھا کر ٹرکوں میں پھینکا جاتا ہے، کچھ دکانوں کے آگے تھڑے توڑ دیئے جاتے ہیں، جرمانے بھی کئے جاتے ہیں مگر آپریشن ختم ہوتے ہی یہ کام پہلے سے زیادہ دیدہ دلیری کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ دھمیال سرکل، گرجا روڈ، غوثِ اعظم روڈ و اس کے اطراف میں اس سماجی مسئلے کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہ امر باعث افسوس ہے کہ غوثِ اعظم روڈ اور اڈیالہ پر تو یہ ناجائز تجاوزات ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ فرنٹیئر ہوٹل سٹاپ، موہڑہ چھپر، بنی سٹاپ، چکری اڈہ، ظفر پلازہ، بسکٹ فیکٹری چوک، قائداعظم کالونی، احمد آباد، علاقہ جھاورہ، بکرا منڈی چوک، ڈھوک سیداں روڈ، ٹاہلی موہری روڈ، بائیس نمبر چونگی اور ٹینچ بھاٹہ پر جابجا سڑکوں پر ہوٹل کھلے دکھائی دیتے ہیں جو فٹ پاتھ کو ذاتی ملکیت سمجھتے ہوئے وہاں کرسیاں اور میز سجا دیتے ہیں‘روڈ کے اطراف خود ساختہ رکشہ سٹینڈ قائم ہیں، صرف رکشہ سٹینڈ ہی نہیں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ٹیکسی اور سوزوکی سٹینڈ بھی دکھائی پڑتے ہیں۔ سڑک کے دونوں طرف سبزی فروٹ کی ریڑھیاں اور ٹھیلے لگے ہوئے ہیں جہاں شہری فروٹ سبزی لینے کیلئے رکتے ہیں تو ٹریفک کی روانی مزید متاثر ہو جاتی ہے۔ فرنیچر شوروم والوں نے فرنیچر فٹ پاتھ پر رکھا ہوتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ شہری انکی جانب متوجہ ہوں۔ کراکری کی دکانوں پر بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔ مرغی کا گوشت بیچنے والوں نے دکان کے باہر بڑے بڑے تھڑے بنا کر ان پر چکن سجایا ہوتا ہے۔ دکان کرائے پر لینے والا دکاندار سمجھتا ہے کہ شاید اس نے دکان کیساتھ ساتھ فٹ پاتھ اور سڑک بھی کرائے پر لے رکھی ہے مگر انتظامیہ نے اس تناظر میں مکمل چپ سادھ رکھی ہے اور عوام کو اس مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ تجاوزات کی اس بھرمار کے نتیجے میں فٹ پاتھ تو ایک طرح سے ختم ہو چکی ہے کیونکہ علاقہ عوام کو مجبوراً سڑک کنارے چلنا پڑتا ہے جس سے ٹریفک حادثات کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر کوئی شہری ان تجاوزات کے آگے یا اطراف میں اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل پارک کرے تو یہ مافیا ان سے انتہائی بد تمیزی سے پیش آتا ہے جس سے لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی معمول بنتے جا رہے ہیں۔ تاجر انکی دکان کے آگے ریڑھی یا ٹھیلے لگانے والوں سے باقاعدہ کرایہ بھی وصول کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں متعدد مقامات تو پر سڑک سکڑ پر آدھی ہو گئی ہے جس سے ٹریفک کی روانی بری طرح متاثر ہے، جگہ جگہ ٹریفک جام اور گاڑیوں کی طویل قطاریں شہریوں کی زندگی اجیرن کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور اس ٹریفک جام میں ایمبولنسز تک پھنسی دکھائی دیتی ہیں جن میں موجود مریض بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث اکثر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ رہی سہر کسر بینکوں نے نکال دی ہے جنھوں نے اپنے جنریٹرز اور اے سی تک بینک کے آگے فٹ پاتھ پر رکھے ہوتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی، راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی یعنی آر ڈی اے کے ادارے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم اے)‘اسسٹنٹ کمشنر، سٹی ٹریفک آفیسر، پیٹرولنگ پولیس و متعلقہ اداروں کی جانب سے وقتاً فوقتاً اس مافیا کیخلاف کریک ڈاؤن بھی کیا جاتا ہے مگر دو چار گھنٹے کی افراتفری کے بعد آپریشن ختم ہوتے ہی تمام ریڑھی و ٹھیلوں والے واپس اپنی جگہ پر آن موجود ہوتے ہیں جبکہ باقی تجاوزات بھی پہلے کی طرح پھر قائم ہو جاتی ہیں۔ چند دن پہلے انچارج ٹریفک اڈیالہ سرکل فیصل کھوکھر، انسپکٹر تبسم شاہ اور راولپنڈی کنٹونمنٹ بورڈ کے ”عملہ انسدادِ تجاوزات“ نے بائیس نمبر چونگی، ٹینچ بھاٹہ، کلمہ چوک کے اطراف تجاوزات کیخلاف بھرپور کریک ڈاؤن کیا جس سے کافی بہتری آئی مگر انتظامیہ کو اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالنا ہو گا۔ شہریوں نے ڈی سی راولپنڈی شعیب علی، سی پی او سید شہزاد ندیم بخاری، سی ٹی او نوید ارشاد، ایس پی – پی ایچ پی (راولپنڈی ریجن) محمد بن اشرف، آر ڈی اے اور کنٹونمنٹ انتظامیہ سے اپیل کی ہے وہ اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دیں اور اہل علاقہ کو اس کرب سے نجات دلوائیں۔
236