77

راولپنڈی پولیس سیاست اور وزارت اعلیٰ پنجاب

کہانی 13سال پرانی ہے راولپنڈی کے علاقہ لالکڑتی میں واقع ایک گرلز ہاسٹل میں ایک مسلح نوجوان گھس کر فائرنگ کرتا ہے جس سے اٹک سے تعلق رکھنے والی دو بہنیں جان کی بازی ہار جاتی ہیں جبکہ انکی تیسری بہن شدید زخمی ہو جاتی ہے اور حسب روایات قاتل موقع سے‏فرار ہوجاتا ہے مقدمہ کا اندراج تھانہ سول لائنز مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کرتی ہے۔

قاتل ایک طاقتور نائب تحصیلدار کا بھتیجا ہوتا ہے جبکہ صوبے کے وزیر اعلیٰ کے منصب پرمیاں شہباز شریف براجمان ہوتے ہیں میں بحثیت کرائم رپورٹر مسلسل اس معاملے کی کوریج کرتا ہوں لیکن اس باوجود پولیس قاتل کو گرفتار نہیں کرتی‏انہی دنوں راولپنڈی ایگریکلچرل یونیورسٹی میں کانووکیشن کا انعقاد ہوتا ہے جس میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف بطور مہمان خصوصی شرکت کرتے ہیں جبکہ یونیورسٹی کے باہرشدید زخمی بچی اور اسکی والدہ وزیر اعلی سے انصاف لینے کے لیے پہنچ جاتی ہیں پوٹھوہار ٹاؤن میں اس وقت ایس پی راجہ بشارت(جوکہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں) کی نظر جب پولیس گردی کا شکار ان ماں بیٹی پر پڑتی تو وہ سفاکیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس کو آرڈر دیتے ہیں کہ ان دونوں عورتوں کو گارڈ روم میں بند کر کے خوب دھلائی کرو

تاکہ یہ انصاف مانگنا بھول جائیں ایس اپی کے کے حکم پر پولیس اہلکار گولیوں سے چھلنی بچی اور اسکی والدہ کو گارڈ روم میں بندکرکے ایسا تشدد کرتے ہیں کہ اللہ کی امان میں اس وقت اپنے دوستوں رپورٹر عمران اصغر،بابر ملک و دبشمول یاسر حکیم، سلطان شاہ، اقبال ملک کے ہمراہ سٹیج سے اتر کر چائے لیے جانے والے وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کو میڈیا ٹالک کے لیے روک لیتے ہیں

ہمیں پتہ چل جاتا ہے کہ پولیس نے مظلوم ماں بیٹی کو گارڈ روم میں بند کررکھا ہے تاکہ وہ سخت گیر و انصاف پسند وزیر اعلیٰ سامنے پیش نہ ہوں سکیں۔ خیر میں اور باقی صحافی دوہرے قتل کی اس سفاکانہ واردات اور پولیس گردی متعلق جونہی سے CM سے سوال کرتے ہیں تو وہ فوری طور پر حسب عادت جلال میں آجاتے ہیں اور میڈیا ٹیم انکو لے کر جب گارڈ روم باہر پہنچتی ہے تو پھٹے کپڑوں، بکھرے بالوں و دوپٹے زمین پر گھسیٹتی روتی چیختی ماں بیٹی وزیر اعلیٰ سامنے آجاتی ہیں اور اپنی داستان بیان کر دیتی شہباز شریف سخت غصہ میں آجاتے ہیں اور ار پی او اور سی پی اور سمیت اس وقت کے آءی جی کو حکم جاری کرتے ہیں کہ مجھے قاتل چوبیس گھنٹے میں زندہ یا مردہ چاہئے

اور چلے جاتے پھر کیا تھا جیسے پنجاب میں زلزلہ آجاتا ہے اور اس وقت کے اءی جی حاجی حبیب الرحمن و وزیر قانون رانا ثناءاللہ شام کو لالکڑتی گرلز ہاسٹل پہنچ جاتے ہیں اور انہیں حسب روایات دلاسے و لارے لپے لگاتے ہیں مگر چوبیس گھنٹے گزرنے بعد بھی قاتل گرفتار نہیں ہوتا تو پھر خبر لگتی کہ میاں شہباز شریف صرف ہونٹ ہلا کر چلے گئے؛

مظلوم عورتوں کو انصاف نہ مل سکا جس پر اس وقت کے RPO صاحب کی کال آتی ہے اور کہتے ہیں کہ ہمارا میڈیا ٹرائل بند کریں ہم قاتل تک پہنچ چکے ہیں خیر اسی رات مجھے سی پی او کے پی ار او راجہ فیاض (جوکہ آجکل ڈی ایس پی ہیں) فون کرکے بتاتے کہ مزکورہ قاتل گرفتار ہوچکا ہے لیکن سورس بتاتے ہیں کہ قاتل نے خود گرفتاری دی کہ شہباز شریف کا حکم تھا کہ قاتل زندہ یا مردہ چاہئے

تو قاتل ڈر کر خود پیش ہوگیا۔قارعین سوچیں کہ “ طاقتور قاتل کیسے میاں شہباز شریف کے ڈر سے خود پولیس سامنے سرنڈر کر گیا”
میں نے اپنے اخبار میں خبر دے دی کہ قتل خود پیش ہوگیا جس پر اس وقت کے SP نے مجھے کال کر کے دھمکیاں دی کہ تمھیں بہت زیادہ تکلیف ہے یہ نہ ہو کہ ہم تمھیں بھی اس قتل کیس میں اندر کرنا پڑے گا”‏خیر پولیس جانب سےکرائم رپورٹرز کو دھمکیاں تو ملتی رہتی ہیں اس لیے میں نے اپنا کام جاری رکھا اور دھمکیوں کو کوئی اہمیت نہ دی

‏آیک بات کا زکر کرتا چلوں کہ اس وقت کے CMمیاں شہباز شریف کے ایکشن کا ایک واقعہ بیان کرنا چاؤں گا کہ اس وقت تھانہ سول لائنز کے ایس ایچ او انسپکٹر راجہ مصدق نے لڑکیوں کے سپورٹر/نائب تحصیلدارکو پکڑ کر تھانے بٹھا لیا تھا اورقاتل کو پیش کرنے کا حکم دیا تھا لیکن راولپنڈی پی پی تیرہ سے ایم پی اے ملک غلام رضا نے قاتل کے چچا کوزاتی ضمانت پر رہا کروایا یہ کہہ کر کے شام تک قاتل کو پیش کریں گے مگر شام کو ایم پی اے نےمزکورہ ایس ایچ او راجہ مصدق کو ہی معطل کروا دیا۔

اگلے روزمیری خبر جب اخبار کی زینت بنی تو وزیر اعلی شہباز شریف جلال میں آگئے اور ایم پی اے ملک غلام رضا کو نہ صرف صحیح جھڑکا بلکہ انہیں 2013 کے جنرل الیکشن میں پارٹی ٹکٹ نہ دیا جس پر ملک غلام رضا نے میرے سینئر کولیگ و دبنگ صحافی اصغر شاد (مرحوم) کو شکایت کی کہ اسرارراجپوت نے میری بیڑی میں بٹے دے دیے (قارئین اکرام ملک غلام رضا آجکل شدید علیل ہیں

ان کی صحت یابی لیے دعا کی اپیل ہے) ‏بعد ازاں قاتل نے مدعی پارٹی کو اسلامی شریعہ مطابق خون بہا ادا کیا اور یوں یہ کیس فائل بند ہوگئی اور عدالت نے ملزم کو بری کر دیا تھا‏ لیکن اب شائید وقت بدل گیا ہے شہباز شریف وزیر اعلی سے وزیر اعظم کا سفر طے کرچکے ہین اب تو کہانی بھی بدل چکی ہے وہ جرائم پیشہ افراد جو میاں شہباز شریف کے نام سے کانپتے تھے اب عوام اور صحافیوں ساتھ زیادتی کی ہر حد کراس کررہے ہیں لیکن دبنگ شہباز شریف چپ سادھے بیٹھے ہیں ن لیگی ایم پی اے غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹی بلیو ورلڈ سٹی کے ڈائریکٹر چودھری نعیم اعجاز نے اپنے جرائم جس میں قتل، اقدام قتل، دھشت گردی، پولیس پر فائرنگ،ڈکیتی، چوری، اغواء، زمینوں پر ناجائز قبضے و غیر قانونی اسلحہ رکھنے جیسے قبیع جرائم کو چھاپنے کے “جرم” میں 15 جون 2024 کو قتل کرنے اور میرے گھر کو بم سے اڑانے کی دھمکیاں دی

جس کی میں نے باقاعدہ پنجاب پولیس کی ایمرجینسی ہیلپ لائن 15 پر اطلاع دی اور تھانہ دھمیال و صدر بیرونی میں ملزمان خلاف مقدمہ درج کرنے لیے درخواستیں بھی دائر کیں لیکن مجال ہے کہ پولیس افسران زرا سا بھی ٹس سے مس ہوئے ہوں اور مجھے پولیس جانب سے پروٹیکشن تو دور کی بات پوچھا تک نہ گیا کہ زندہ ہو یا مار دیے گئے ہو الٹا مجھے IG پنجا کے مروجہ حکم کی روشنی میں درخواستوں کا ای ٹیگ تک نہ دیا گیا۔

میں اب اپنی فیملی کو لے کر کبھی ادھر کبھی اُدھر چھپتا پھر رہا تھا کہ نعیم اعجاز کی دھشت گرد افغان ملیشیاء مجھے قتل کرنے کے در پر تھی۔ پھر یہ ہوا کہ ایک سٹوری لیے میں نے بلیو ورلڈ سٹی کے سی ای او چوھدری سعد نزیر کا مؤقف جاننے لیے رابطہ کیا جس پر میرے ادارے کی مینجمنٹ کو غصہ آیا اور انہوں نے مجھے نوکری سے نکال باہر کیا جس بعد میرے پاس سوائے ملک چھوڑنے کے کوئی چارہ نہ بچا ۔

سو میں اپنی جان بچانے لیے بیرون ملک آگیا ہوں
‏آج جب سوشل میڈیا پر پاکستان کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو یوکے پولیس سے ان کے کیبنٹ ممبر/وزیر دفاع خواجہ آصف کو دوران سفر ملنے والی چاقو حملہ دھمکیوں پر ایکشن لینے کی استدعا پڑھی تو دل خون کے آنسو رویا اور بے اختیار میں وزیر اعظم سے ان کی ٹوئٹ پر سوال کر بیٹھا کہ آپ ریاست پاکستان کے بادشاہ ہو کر، سیاہ و سفید کے مالک ہوکر اپنی مظلوم رعایا و صحافیوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو چکے ہیں

، جن جرائم پیشہ افراد کو جیل میں ہونا چاہیے تھا وہ آپکی بھتیجی کی پنجاب کیبنٹ میں ممبر ہیں مگر آپ خاموش ہیں جس پر میں یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا کہ عوام کو وزیر اعلیٰ شہباز شریف چاہیے ناکہ وزیر اعظم ‏دوسری اہم و کڑوی بات جب آپ اپنے گھر میں باسیوں ساتھ انصاف نہیں کریں گے تو باہر کی دنیا کیوں آپ کی آہ و فریاد پر توجہ دے گی لہزا رحم کریں عوام پر تاکہ آپ پر بھی بیرون ممالک رحم ہو اللہ میرے ملک کا حامی ناصر ہو

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں