راولپنڈی سمیت پنجاب کے دیگر اضلاع میں سرگرم ہنی ٹریپ گینگ کے اسکینڈلز نے پولیس پراسکیوشن محکمہ اور عدالتی نظام کی کمزوریوں کا نہ صرف پردہ چاک کردیا ہے، بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قانون کے نظام کی شفافیت پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے راولپنڈی میں بااثر شخصیات، راولپنڈی میں تعینات پولیس افسران، سرکاری وکلاء جعلی وکلاء اورپولیس کے برخاست شدہ اہلکاروں پر مشتمل اس منظم گروہ نے خواتین کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف لوگوں کی عزتیں نیلام کیں بلکہ جھوٹے مقدمات کے ذریعے کروڑوں روپے بٹورے۔
جعلی شناختوں، ڈی این اے رپورٹس اور قانونی تعاون کے اس سیاہ کھیل نے پورے معاشرے کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جب محافظ ہی جرائم پیشہ عناصر کے سہولت کار بن جائیں تو انصاف کہاں تلاش کیا جائے؟یہ تو ایک گینگ سامنے آیا ہے ایسے کئی گینگز پوش سوسائٹیوں میں موجود ہیں جو سوشل میڈیا پر مختلف اشتہارات کے ذریعہ کیسے عوام بالخصوص نوجوانوں کو جال میں پھنسانے کے بعد انکو ریپ مقدمات میں ملوث کرنے ان سے بھاری رقوم اینٹھنے میں سرگرم ہیں، اس گینگ کی سرگرمیوں اور محکمانہ نظام کے گٹھ جوڑ کا معاملہ سامنے آیا تو راولپنڈی پولیس کے اعلیٰ حکام کے انکوائری کی جس میں کئی ہولناک انکشافات منظر عام پر آئے
حکام کی ہدایات پرراولپنڈی کے تھانہ چکلالہ میں درج ایف آئی آر نے قانون کی چولیں ہلا کر رکھ دیں، پولیس نے ایک ایسے آٹھ رکنی منظم گینگ کا پردہ چاک کیا ہے جوگزشتہ کئی برسوں سے شہریوں کو ہنی ٹریپ کرکے ریپ مقدمات میں پھنسا کر ان کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کروا رہا تھادلچسپ بات یہ ہے کہ اس گینگ میں پولیس افسران، سابق پولیس اہلکار، سرکاری وکیل اور جعلی وکیل سمیت ایسے افراد شامل تھے جو قانونی سقم اور سرکاری روابط کا فائدہ اٹھا کر نظامِ انصاف کو شدید دھچکا پہنچا رہے تھے
تھانہ چکلالہ پولیس نے 18 جون 2025 کو اسسٹنٹ سب انسپکٹر احسان اللہ کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا، جس میں انکشاف ہوا کہ ایک پولیس‘ وکلاء ور پرائیویٹ اشخاص پر مشتمل گروہ مختلف لڑکیوں کو استعمال کرتے ہوئے ہنی ٹریپ کا جال بچھاتا رہا اور ایسے آکٹوپس کے شکنجے میں جھکڑتا رہا کہ جہاں سے نکلنا کسی کے بس کی بات نہ تھی درج ایف آئی آر میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 506، 384، 419، 420، 468، 471، 182، 211، 201، 109 اور 186 کے علاوہ اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) ایکٹ 2021 کی سیکشن 22 اور پولیس آرڈر 2002 کی سیکشن 155-C کو شامل کیا گیا ہے مقدمے میں جن آٹھ افراد کو نامزد کیا گیا، ان میں محمد نوشیروان عرف نیازی (گینگ کا سرغنہ)افضال بخاری عرف ظل شاہ راجہ قیصر محمودراشد علی عباسی، سب انسپکٹر اظہر اقبال گوندل، سابق پولیس کانسٹیبل محسن گوندل، سرکاری وکیل ندیم سلطانی جعلی وکیل علی گوندل ایڈووکیٹ عرف نواز گوندل، عرف سرفراز، عرف قیصر رانجھاشامل ہیں
اب تک تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ گینگ غیر متعلقہ خواتین کے شناختی کارڈز حاصل کرتا، ان پر گینگ کی لڑکیوں کی تصاویر لگا کر جھوٹے مقدمات درج کرواتا‘بعد ازاں متاثرہ مردوں کو بلیک میل کر کے بھاری رقوم بطور”صلح“ کے نام پر حاصل کرتا۔ اس مقصد کے لیے گینگ عدالتی میڈیکل، ڈی این اے رپورٹس اور جعلی گواہیوں کا سہارا لیتا یہ کھیل مزید جاری رہتا لیکن قدرت کا نظام حرکت میں آیا اور پی ایف ایس سی نے ایک ڈی این اے رپورٹ کے جائزہ دوران اس گروہ کا بھانڈا پھوڑ دیا گینگ کی کارروائیوں کا راز اُس وقت فاش ہوا جب تھانہ چکلالہ کے مقدمہ نمبر 1065/24 میں مدعیہ (ن ک) کا ڈی این اے نمونہ سال 2023 میں تھانہ سٹی اٹک کے مقدمہ 622/23 میں مدعیہ (ث) سے میچ کر گیا۔
فرانزک رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ یا تو دونوں خواتین جڑواں ہیں یا ایک ہی خاتون مختلف ناموں سے مختلف اضلاع میں پیش ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت سامنے آنے پر پولیس نے شک کی بنیاد پر گہرائی سے تفتیش کی اور گینگ کو بے نقاب کر دیا تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ سب انسپکٹر اظہر اقبال گوندل اور سرکاری وکیل ندیم سلطانی گینگ کو تھانوں اور عدالتوں میں سہولت فراہم کرتے رہے۔ یہ افراد نہ صرف قانونی کارروائیوں کو موڑتے بلکہ جھوٹے مقدمات کے اندراج اور ان کی پیروی میں بھی گینگ کی بھرپور مدد کرتے تھے۔
دوران تحقیق یہ بات بھی سامنے آئی کہ مذکورہ گینگ صرف راولپنڈی میں ہی نہیں بلکہ پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی اسی طرز کی گیم ڈالتا رہا ہے اس گینگ کے خلاف راولپنڈی، جہلم، گوجرخان، واہ، مندرہ، شیخوپورہ اور دیگر اضلاع میں درج کیے گئے مقدمات کا جائزہ لینے پر معلوم ہوا کہ یہ گروہ کئی برسوں سے متحرک تھا۔ صرف راولپنڈی کے تھانوں میں ہی گینگ کے خلاف درج مقدمات کی تعداد درجنوں تک جا پہنچی ہے قبل ازیں تھانہ صادق آباد اور تھانہ صدر بیرونی پولیس نے بھی ایسے ہنی ٹریپ گینگ کو گرفتار کیا تھا
جس میں حاضر سروس پولیس ملازمین شامل تھے ہمارے قانونی نظام میں کتنا سقم ہے کہ اللہ کی پناہ ہنی ٹریپ جیسے جرائم میں جب پولیس، پراسیکیوٹرز اور عدالتی اہلکار شامل ہوں تو صرف افراد نہیں بلکہ پورا انصاف کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ اس کیس نے اس بات کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے کہ پولیس، عدلیہ اور پراسیکیوشن جیسے اداروں میں احتساب کو سخت تر بنایا جائے تاکہ کوئی بھی قانونی موشگافیوں کا فائدہ نہ لے سکے آنے والے دنوں مین یہ بات متوقع ہے کہ گینگ کے کئی اہم ارکان گرفتار کیے جا چکے ہیں جبکہ تفتیش جاری ہے۔
پولیس زرائع دعویدارہیں کہ آنے والے دنوں مزید گرفتاریاں متوقع ہیں لیکن اتنی بڑی ہلچل کے بعد ہوسکتاہے گینگز کے باقی ماندہ لوگ زیر زمین ہوجائیں یا بیرون ملک چلے جائیں تاکہ جب حالات سازگار ہوں تو پھر آکر اس حرامکاری کو دوبارہ سے جاری رکھ سکیں پولیس زرائع کا دعوی ہے کہ اب متاثرین کی شناخت کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ یہ ایک گینگ نہیں ایسے سینکڑوں گینگ جڑواں شہروں میں موجود ہیں جو مالدار آسامیوں کی تاک میں رہتے ہیں اور انہیں ٹریپ کرکے حرام کا مال جمع کرتے ہیں راولپنڈی ہنی ٹریپ اسکینڈل نہ صرف ریاستی اداروں کے اندر موجود کرپشن کا منہ بولتا ثبوت ہے بلکہ یہ معاشرتی سطح پر اخلاقی زوال کی بھی نشان دہی کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف اس گینگ کے خلاف مثالی کارروائی ہو بلکہ نظامِ انصاف میں موجود خامیوں کو بھی دور کیا جائے تاکہ کوئی اور شہری ایسے جال میں نہ پھنسیں۔