نوید ملک/ضلع راولپنڈی پولیس کی کارکردگی حالیہ چند ماہ سے ماضی کی کارکردگی سے بہت بہتر و قابل تعریف ہے پولیس افسران کی توجہ کے سبب پنڈی پولیس کی کارکردگی کا گراف ضرور بلند ہوا ہے مگراس کے باوجود تاحال پولیس عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنے میں کسی حد تک ناکام بھی دکھائی دے رہی ہے روات کلر سیداں روڈ پر اورسیز پاکستانیوں و مقامی باسیوں کو گن پوائنٹ پر لوٹنے کے واقعات ہوں یا تھانہ چونترہ کی حدود میں ہونے والے قتل کے واقعات تھانہ گوجر خان کے حوالات میں شہری الیاس بٹ کی ہلاکت کا معاملہ ہو یا جرائم پسند عناصر سے روابط کے سبب معطل کئے جانے والے پولیس ملازمیں ، چند دن بیشتر موٹر وے پولیس نے موٹروے پر راولپنڈی پولیس کے ملازموں کو سنگین وارداتوں و شہریوں کو گن پوائنٹ پر لوٹنے کے واقعات میں ملوث ہونے پر گرفتار کر کے جہاں اس کے بڑھتے ہوئے مقبولیت کے گراف پر قاری ضرب لگائی ہے وہاں حاضر سروس پولیس ملازمین کا لوٹ مار میں ملوث ہونے کا واضع ثبوت سامنے آنے پر میرے اس سوچ و بات کو تقویت مل رہی ہیں کہ روات کلر سیداں و گوجر خان تک اورسیز پاکستانیوں و مقامی باسیوں کو گن پوائنٹ پر لوٹنے والے گروہ میں پولیس کے ملازم شامل ہیں موٹر وے پولیس کی طرف سے پنجاب پنڈی پولیس کے ملازمین کی ٹیکسلا میں گرفتاری و کیس کے اندارج سے آئی جی پنجاب پولیس و سی پی او راولپنڈی پولیس کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب بھی پولیس کے اندر کالی بھیڑیں شامل ہیں ان کے خاتمے کے لئے ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے ماضی میں سیاسی بنیادوں پر پولیس کے اندر ہونے والی بھرتی کے یہی ثمرات ہیں کہ جرائم پسند عناصر وردی پہن کر اس میں شامل ہو چکے ہیں منشیات فروش ہزاروں لیٹر شراب و چرس ہیروئن کے ساتھ گرفتار ہوتے ہیں ، بچوں سے جنسی زیادتی کرنے والے درندے گرفتار ہوتے ہیں مگر کیا وجہ ہے کہ وہ سزا پانے کے بجائے چند ماہ بعد عدالتوں سے ضمانت و رہائی پا کر گلیوں میں گھوم کر بھی اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کرتے نظر آتے ہیں ان باتوں پر پنجاب پولیس کے سربراہ و سی پی او راولپنڈی پولیس کو سوچنا چاہیے پولیس کے ناقص نظام تفتیش و تفتیشی افسران کا کیس کی تفتیش کے دوران جرائم پسند عناصر سے بھاری نذرانے و مراعات لے کر کیس کی کمزور تفتیش کرنے کے سبب گرفتار ہونے والے منشیات فروش و جنسی درندے باآسانی رہا ہو جاتے ہیں پنجاب پولیس میں بہتری لانے کے لئے اس کے نظام تفتیش کو بدلنا ہو گا اور موجودہ ضلعی صورت حال میں رینجرز کی ضلع راولپنڈی میں تعینات کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ارض پاک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا 94فی صد حصے و ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کا کنٹرول رینجرز کے زیر نگرانی ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تو پھر ملک کے سب سے اہم ضلع راولپنڈی میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لئے اور بڑے بڑے اسلحہ بردار گروپس و جرائم پسند عناصر کے قائم ڈیروں کے خاتمے کے لئے رینجرز کی تعیناتی میں کیا قانونی پیچیدگی آڑھے آ رہی ہیں کس کو اعتراض ہے رینجرز کی تعیناتی پر ؟ قوانین کے مطابق رینجرز کو پولیس فنڈ ہی سے بھاری بجٹ دیا جاتا ہے رینجرز کی تعیناتی سے پنڈی کی رونقیں بحال ہونے میں معاون ثابت ہو گا اور اگر اس عمل میں دیر کی گئی تو پنڈی کی رونقیں بھی کراچی شہر کی روشنیوں کی طرح ماند پڑ جائیں گی جرائم پسند رعناصر کے سبب جو کراچی جیسے بڑے شہر میں پولیس رینجرز و سیکورٹی اداورں کی موثر کاروائیوں کے سبب و اپنے آپ کو بچانے کے لئے پنڈی میں بنی نجی ہاوسنگ سوسائٹیوں میںڈیرے ڈیرے ڈال کر وفاقی وزیر داخلہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں ماضی میں تو ایسا لگتا تھا جیسے پورے ملک کو صرف وزیر داخلہ ہی چلا رہے ہیں اور سارے سچ اور سارے راز ان کے پاس ہیں جو ہر پریس کانفرنس میں سامنے لانے کے دبنگ اعلانات کے باوجود وہ انکے سینے ہی میں دبے رہے موجودہ وزیر داخلہ راولپنڈی میں رینجرز کی تعیناتی کا اعلان کریں اور دفتر پڑی پرانی فائلوں میں دفن راز سامنے لائیں راولپنڈی میں رینجرز کی تعیناتی میں سیاسی معاملات کو بالاطاق رکھ کر فیصلہ کیا جائے بصورت دیگر جرائم پسند عناصر راولپنڈی کی رونقوں کو نگل جائیں گے کراچی کی روشینوں کی طرح ۔
199