راولپنڈی سرکاری سکولز این جی اوز کے حوالے کرنے کی باز گشت

تحریر چوھدری محمد اشفاق
غریب عوام اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں تعلیم نہیں دلوا سکتے ہیں جس وجہ سے وہ سرکاری سکولوں کا رخ کرتے ہیں ایک طویل عرصے کے بعد عوام کا اعتماد سرکاری سکولوں پر بحال ہوا تھا جس کو ذائل کرنے کیلیئے حکومت سرکاری سکولوں کو نجی شعبہ میں دینے کیلیئے مختلف منصوبوں پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے اس حوالے سے طرح طرح کی افواہیں سنی جا رہی ہیں جن کی وجہ سے غریب والدین سخت زہنی پریشانی میں مبتلا ہو چکے ہیں ان کو خطرہ ہے کہ اگر حکومے نے سرکاری سکولز بھی پرائیویٹ شعبہ کو دے دیئے تو غریبوں کے بچے تعلیم سے محروم رہ جائیں گئے اب تک جو باتیں تعلیمی حوالے سے چل رہی ہیں ان کے مطابق پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ (SED) نے اساتذہ کی انجمنوں کی شدید مزاحمت کے باوجود راولپنڈی ڈویژن میں 350 سرکاری سکولوں کی نجکاری کا عمل تیز کر دیا ہے اس میں ان کے تمام اثاثے بشمول عمارتیں، کھیل کے میدان اور لیبارٹریز شامل ہیں جن کی مالیت کا تخمینہ اربوں روپے ہے۔ نجی شعبے کے کنٹرول میں آنے کے بعد، حکومت ان سرکاری اسکولوں پر تمام براہ راست کنٹرول اور اختیار کو ترک کر دے گی ذرائع کے مطابق راولپنڈی ڈویژن کے چار اضلاع بشمول راولپنڈی، اٹک، چکوال اور جہلم کے حکام کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے راولپنڈی ڈویژن سمیت پنجاب بھر میں لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے مجموعی طور پر 1,000 اے کلاس ہائی اسکولوں کو ایک غیر منافع بخش تنظیم ”مسلم ہینڈز” کو منتقل کرنے کی منظوری دی گئی ہے ان اسکولوں کی فہرست پہلے ہی این جی او کے حوالے کرنے کے لیے تیار کر لی گئی ہے۔ جاری کردہ فہرست کے مطابق اس سے قبل 15,000 لڑکیوں اور لڑکوں کے سکول مختلف اداروں کو منتقل کیے جا رہے تھے، جن میں پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن، پنجاب ایجوکیشن انیشیٹو مینجمنٹ اتھارٹی، پنجاب دانش سکول اور سینٹر آف ایکسی لینس شامل ہیں دوسری جانب پنجاب ہیڈ ماسٹرز ایسوسی ایشن، پنجاب ٹیچرز یونین، ایجوکیٹرز ایسوسی ایشن، پنجاب ایس ای ایس ایسوسی ایشن اور آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن نے اس فیصلے کی شدید مخالفت کا اظہار کیا ہے انہوں نے اس اقدام کے خلاف احتجاج اور ریلیوں کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ نگران حکومت کا کردار روز مرہ کے معاملات اور انتخابات کے انتظام تک محدود ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ پالیسی سازی کے فیصلوں کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہوتی ہے، اور پنجاب اسمبلی میں اس وقت کوئی وجود نہیں ہے، ایسے فیصلے نہیں کیے جانے چاہیے موجودہ حکومت پر طنز کرتے ہوئے پنجاب ٹیچرز یونین کے مرکزی رہنما شاہد مبارک نے تجویز دی کہ سرکاری سکولوں کی منتقلی کے بجائے نگراں حکومت کو مسلم ہینڈز کے حوالے کیا جائے فہرست کے مطابق تحصیل کلرسیداں کے جو سکول این جی اوز کے حوالے کیئے جا رہے ہیں ان میں گورنمنٹ گرلز سکول سکوٹ،گورنمنٹ گرلز ہائی سکول چوہا خالصہ،گورنمنٹ گرلز ہائی سکول نلہ مسلماناں،گرلز ہائیر سیکینڈری سکول سموٹ،گرلز ہائیر سیکینڈری سکول چوہا خالصہ،ہائی سکول بھلاکھر،ہائی سکول سر صوبہ شاہ،ہائی سکول پھلینہ،ہائی سکول گرلز کلرسیداں،گرلز ہائی سکول دوبیرن کلاں،گرلز ہائی سکول دھمالی،ہائی سکول ڈیرہ خالصہ،ہائی سکول بھکڑال،ہائی سکول بناہل،گرلز ہائی سکول پندوڑی لوہاراں،گرلز ہائی سکول ولائت آباد،گرلز ہائی سکول تریل،گرلز ہائی سکول سرصوبہ شاہ،گرلز ہائی سکول سینتھہ،گرلز ہائی سکول نوتھیہ،گرلز ہائی سکول موہڑہ بنی،گرلز ہائی سکول کنوہا،گرلز ہائی سکول چنام،گرلز ہائی سکول سروہا،گرلز ہائی سکول نمبل،گرلز ہائی سکول ٹکال،گرلز ہائی سکول ستھوانی،گلرز ہائی سکول نلہ مسلماناں،بوائیز ہائی سکول دوبیرن کلاں،گرلز ہائی سکول کلریاں،بوائز ہائی سکول کلرسیداں،گرلز ہائی سکول کلرسیداں،ایلمنٹری سکول کھڈ، ایلمنٹری سکول کلرسیداں شامل ہیں اگر یہ تمام سرکاری سکولز این جی اوز کے حوالے کر دیئے جاتے ہیں تو ظاہری سی بات ہے کہ بچوں کی فیسیں بھی بہت زیادہ بڑھ جائیں گی جو غریب کے ساتھ ایک بہت بڑی زیادتی تصور ہو گی وہ غریب والدین جو اپنے بچوں کو صرف اس سہارے پر سرکاری سکولوں میں تعلیم دلوا رہے ہیں کہ یہاں پر فیسز بہت کم ہیں لیکن اگر سرکاری سکولز کا ھال بھی پرائیویٹ سکولوں کی طرز پر بنا دیا گیا تو وہ اپنے بچوں کو کہاں لے کر جائیں گئے گورنمنٹ کو چاہیئے کہ وہ ہوش کے ناخن لے اور اگر اس طرح کی کوئی تجاویز زیر گور بھی ہیں تو ان کو فوری طور پر مسترد کیا جائے ادھر اساتذہ تنظیموں نے احتجاجی تحریک کا اعلان بھی کر دیا ہے ملکی حالات بھی ایسے نہیں ہیں کہ ان کو مزید بگاڑا جائے حکومت کو اس طرح کی غریب دشمن، اساتذہ دشمن اور عوام دشمن پالیسیوں کو بدلنا ہو گا بسورت دیگر ھالات قابو سے باہر ہو جائیں گئے

اپنا تبصرہ بھیجیں