راجہ پرویز اشرف مستقل مزاج رہنما

کاشف حسین‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ/ ثابت قدمی کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ پیروں میں طاقت اور ارادو استقامت کس حدتک ہے اور یہی تعین انسان کی آیندہ زندگی کو درست یا غلط کوئی بھی سمت عطا کرتا ہے۔انسان کی چھوٹی چھوٹی غفلتیں اور حالات سے فرار کی عجلتیں اس کے گرددائرہ تنگ کر دیتی ہیں۔اگر انسان انا پرستی اور مفادات پر سمجھوتہ نہ کرئے تو کوئی اسے توڑنامشکل ہی نہیں ناممکن ہوتاہے۔پاکستانی سیاست مفاد پرستی اور موقع پرستی کے گرد گھومتی ہے سیاسی جماعتوں میں آمد ورفت ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔پارٹی سے غداری کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔بلکہ ایسا کر گذرنے والے انتہائی ڈھٹائی سے اسمبلی کے فلور پر اپنی سابق جماعت کے خلاف کرپشن پر بھاشن دیتے نظر آتے ہیں۔پاکستان کی سیاست جبش ابرو کی محتاج ہے اور ایک خاص قبیلہ اس جبش کا ہمیشہ منتظر رہتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ وفادار اور ڈٹ رہنے والے سیاست دانوں کا کال ہے کچھ نام ثابت قدمی کے حوالے سے سیاسی تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔جو تمام تر مشکلات اور سختیوں کے باوجود اہنی جماعت کے نظریے سے جڑے ہوئے ہیں۔گو ایسے لوگ انگیلوں پر گنے جاسکتے ہیں ان چیدہ چیدہ لوگوں میں گوجر خان کی سیاست پر مبضوط گرفت رکھنیوالے سابق وزیراعظم راجہ پرویز، اشرف کا نام شامل ہے۔راجہ پرویزاشرف کی سیاسی تربیت ان کے ماموں کرنل اشرف مرحوم نے کی۔جو راولپنڈی کی سیاست کا ایک بڑا نام رہے کرنل اشرف مرحوم کی سیاست تربیت نے راجہ پرویز، اشرف کو کچھ اس طرح سے نکھارا کہ ان کی شخصیت بہت کم عرصے میں ملکی سطح پر اجاگر ہوئی راجہ پرویزاشرف نے اپنی عملی سیاست کا آغاز 1990 میں پیلز پارٹی کے ٹکٹ پر ن لیگ کے راجہ جاوید آخلاص کے مدمقابل گوجر خان سے پنجاب اسمبلی کے لیے الیکشن لڑ کرکیا گو راجہ پرویز اشرف اس الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئے تاہم وہ پارٹی میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔مشرف دور میں راجہ پرویزاشرف نے اپنی جماعت کی مدد سے ڈسٹرکٹ ناظم کا الیکشن لڑا جس میں ان دیکھی قوتوں نے ان کے جیتے ہوئے الیکشن کو شکست میں بدل دیا اور ان کے مدمقابل سرکاری جماعت ق لیگ کے امیدوار کامیاب قرار پائے۔2008 کے عام انتخابات میں ایک بار پھر آپ اپنی جماعت کے ٹکٹ پر حلقہ۔سے امیدوار ہوئے اور کامیاب ہوکر اپنی حکومت میں کابینہ کا حصہ بنے آپ کو پانی وبجلی کی وزارت دی گئی۔کچھ عرصہ بعد وزراء کے قلمدان تبدیل ہوئے تو اپ کے حصے میں آئی ٹی اور موسمیات کی وارت آئی۔اسی دوران سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا تو وازرت اعظمٰی کا تاج ان کے سر بندھا۔یہ گوجر خان کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں تھا۔پیپلزپارٹی نے انہیں وازرت اعظمی کی کرسی پر بٹھا کر دراصل ان کی وفاداری اقر ثابت قدمی کو خراج تحسین پیش کیا۔گوجر خان کی سیاست میں شاید ہی کوئی ایسا رہنماء میسر ہو جو اپنی سیاست کی ابتدائی جماعت سے منسلک ہو۔ انہوں کا دعویٰ ہے کہ اپنی حکومت کے پنج سالہ میں انہون نے دس ہزار نوجوانون کو نوکریاں فراہم کیں جن میں اکثریت واپڈا میں بھرتی ہوئی۔راجہ پرویز اشرف کے مطابق انہون نے اس دوران حلقے میں 47ارب کے ترقیاتی کام۔کروائے جن میں حلقے کے 80.فیصد علاقوں کو گیس کی فراہمی بھی شامل ہے جبکہ سڑکیں اور بجلی کی فراہمی بھی ان منصوبوِں میں شامل ہیں۔ورچل یونیورسٹی۔۔پاسپورٹ آفس کا قیائم۔نادرا آفیس۔پنجاب بینک کی تین برانچیں۔نیشنل بینک کنتریلہ برانچ۔گوجرخان ریلوے اسٹیشن کی تزین وآرائش و ٹرینوں کے اسٹاپ کی بحالی۔ریلوے انڈرپاس آپ کے کریڈیٹ پر ہیں۔آپ اپنے نام کے ساتھ اپنے ماموں اور سیاسی استاد کا کرنل اشرف کا نام لگا کر ان کے تربیت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں آپ کا کہنا ہے کہ ان کی کامیاب سیاسی زندگی کے پیچھے ان کے ماموں کی سیاسی تربیت کا ہاتھ ہے ورنہ وطن عزیز، میں کئی سیاست دان موجود ہیں۔جو طویل عرصہ گذرنے پر بھی سیاست میں وہ مقام نہ بنا سکے جو انہیں نصیب ہوا لوٹا کریسی کے اس دور میں راجہ پروز اشرف کا اپنی جماعت کا وفادار رہنا یقیناً لائق تحسین ہے۔اور ان کی وفاداری ان کے حلقے کے عوام کے لیے بھی فخر کی بات ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں