راجہ پرویزاشرف نے سیاسی مخالفین کیلئے خطرے کی گھنٹی بجادی

ملک بھر میں موسم شدید سرد جبکہ سیاست کی گرمی اپنے عروج پر ہے حسب معمول ایک بار پھر طول وعرض میں سیاسی حالات نے ہلچل مچا دی ہے ہر خاص وعام اس کی لپیٹ میں ہے ہمارے ملک میں سیاست کی سوداگری ایک وبا کی صورت پھیل چکی ہے جس سے بچنا ممکن نہیں رہا۔عدم برداشت کی مسلسل خرابی نے رفتہ رفتہ ہر ایک کو عجلت پسند مریض بنا دیا ہے اپنے علاوہ ہمیں کسی کا اقتدار واختیار میں رہنا قبول نہیں ملک کی بقا اور عوام کا استحکام کسی کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتا۔ذاتی بقاء کی جنگ میں قوم کوفنا کے قریب تر کردیا گیا ہے ملک کی معیشت تباہ ہوچکی۔اگر آزادی کے فوری بعد ملک کی بنیادوں میں مملکت سے محبت‘یگانگت کا جذبہ شامل حال رہتا اور مسلسل سفر در سفر ہماری اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا رہتا تو ہم آج اس صورتحال سے دوچار نہ ہوتے ملک کی بقاء اور مفاد ہماری اولین ترجیح ہوتی تو ہم ترقی یافتہ اقوام کے ساتھ کھڑے نظر آتے۔

ہمارے ناعاقبت اندیش محفاظوں نے اقتدار کے رسیا سیاست دانوں اور کرپٹ افسرشاہی نے باہمی اشتراک سے اس ملک کو جان بوجھ کر کھوکھلا کیا عوام کو روز اول سے روٹی کی فکر میں مبتلا کردیا۔ تاکہ عوام ان کی کرتوتوں پر سوال نہ اُٹھا سکیں۔ترقی وتوسیع‘قوت واخوت‘ایمان داری‘سچائی ہر محاذ پر ہم‘پسپا ہیں۔جو رہبر آیا دعوؤں اور خوابوں کا بنیاد پر آیا لیکن پشت پر وہ طاقتیں رہیں جو اس ملک کی تباہی کی اصل ذمہ دار ہیں کسی کو گرایا گیا کسی کو اُٹھایا گیا یہ تماشہ گذشتہ ستر برس سے جاری رہا اور اب بھی جاری ہے سیاست میں کامیاب ہونے کے لیے مالکوں کی پشت پناہی اور پیسے کی فراوانی دو اہم چیزیں ہیں۔جو ان کو سمجھ گیا وہ کامیاب ٹھہرا۔موجودہ دور میں بھی وقت پر گہری نظر رکھنے والے مہربان آنے والے وقت کا اندازہ کرکے آشیانے بدل رہے ہیں گذشتہ دنوں گوجرخان میں پی ٹی آئی کے کچھ نامور لوگ تبدیلی سے مایوس ہوکر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔بظاہر وہ لوگ پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے لیکن گراؤنڈ رائلٹی یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام لوگ پی پی پی میں نہیں بلکہ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی ذات سے منسلک ہوئے ہیں ہمارے یہاں نظریات کی بات نہیں ہوتی شخصی پسند وناپسند پر سیاسی فیصلے کیے جاتے ہیں کیونکہ یہاں ووٹر ورکر یا سپورٹر جماعت کے منشور کو پڑھ کر ووٹ کا فیصلہ نہیں کرتا نہ ہی کبھی سیاسی جماعت سے کیے وعدوں کے ایفاء نہ ہونے پر سوال اُٹھاتا ہے۔ہم لیکر کے فقیر ہیں نالی گلی۔گیس بجلی کے کھمبے ہمارے ترجیحات ہیں ہم اپنے بچوں کے لیے اچھی معیاری ایجوکیشن نہیں چاھتے۔ہم میڈیکل کی بہتر سہولت نہیں چاھتے ہم مشترکہ طور بحثیت قوم ملکر فیصلہ نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ کیا سیاست دان کیا محافظ کیا افسر شاھی سب نے ہمیں ”الو“کا کاٹ سمجھ لیا ہے۔بات ہورہی تھی پی ٹی آئی کو گوجرخان میں راجہ پرویز اشرف کے ہاتھوں لگے ایک بڑے جھٹکے کی جس میں پی ٹی آئی ٹریڈرز ونگ کے ضلعی ڈپٹی سکریٹری وممبر پرائس کنٹرول کمیٹی گوجرخان راجہ نوید چوہان نے راجہ پرویز اشرف کو اپنے گاوں ڈھوک چوہان بلوا کر ان کی موجودگی میں اپنی برادری سمیت پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔یقیناًنوید چوہان کا اپنی برادری سمیت راجہ پرویز اشرف کے ساتھ چلنے کا اعلان جہاں جیالوں کے لیے حوصلہ افزاء خبر ہے وہیں انصافیوں کے لیے بیڈ نیوز کہی جاسکتی ہے۔راجہ پرویز اشرف اس حوالے سے خوش قسمت ہیں کہ ان کی سیاسی مصروفیت کے باعث ان کے بیٹے خرم پرویز اور بھائی جاوید اشرف علاقہ کے عوام سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں جس کا راجہ پرویز اشرف کو فائدہ ملتا ہے۔میری رائے پہلے بھی یہی تھی کہ راجہ پرویز اشرف قومی کی نشست پر ناقابل شکست ہوچکے ہیں اور اب اس شمولیت کے بعد میری رائے مزید جاندار ہوچکی بلکہ اگر خرم پرویز کو صوبائی پر الیکشن لڑوایا گیا تو وہ بھی یہ نشست پی ٹی آئی سے باآسانی چھین سکتے ہیں جبکہ ن لیگ اپنے باہمی اختلافات اور بونوں کے باون گز بننے کی کوششوں کی وجہ سے گوجرخان میں زیر وپر کھڑی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں