راجہ نعیم ابدی نیند سو گیا

دل ہے کہ ابھی تک ماننے کو تیار نہیں۔ نعیم بھائی آپ اس طرح اچانک بغیر بات کیے چلے گئے۔ موت بر حق ہے اور کسی بھی وقت آ سکتی یے مگر اس طرح چپ سادھ کر روانہ ہو گئے۔ نعیم کی اولاد اپنے باپ کو اس عارضی دنیا سے رخصت کرتے ہوئے انتہائی کرب میں مبتلا تھی۔ نعیم ہر شخص سے یوں ملتا جیسے اسکا بھائی ہو۔ آج والی بال کے میدان کا روشن ستارہ ہم سب کو چھوڑ کر اپنے ابدی میدان میں جا بسا۔ ساگری کی رونق اور پاکستان آرمی میں اپنی زندگی کے قیمتی برس گزارنے والا یہ مرد قلند ہر شخص کو رولا کر خاموشی سے روانہ ہو گیا۔ اخلاقیات کا خوبصورت پیکر اور کردار کا بے تاج بادشاہ ہم سب کو چھوڑ کر چل دیا۔
اب کے برس ایسا قحط پڑا ہے اشکوں کا
کہ آنکھ نم نہ ہوئی خوں میں ڈوب کر
رشتے دار اور عزیز تو اس دکھ میں مبتلا تھے ہی مگر دوست اور پڑوسی سب اپنی پلکیں سمندر میں بھگو رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ماں کا شہزادہ گہری نیند سو رہا ہو۔ آپ کو معلوم ہے یہ گہری نیند کیوں سو رہا تھا۔ کیونکہ یہ اپنی والدہ کے پاس ایک بار پھر گود میں بیٹھنے جا رہا تھا۔ ماں اور بیٹا ایک بار پھر ایک ساتھ ہو گئے۔نعیم بھائی انتہائی سلجھے ہوا اور پائیدار انسان تھا۔ اولاد سے محبت کا کچھ مت پوچھیں۔ بس یہ سوچ کر دکھ ہوتا ہے کہ اس دکھ کو ڈھلتے ڈھلتے کافی وقت لگے گا مگر بہت وقت لگے گا۔ ہر انسان ایسے موقع پر یہ کہتا ہے کہ صبر کریں۔ اور ایک وقت آتا ہے صبر آ بھی جاتا ہے مگر جس پر یہ لمحات بیت رہے ہوتے ہیں اس سے کبھی کوئی پوچھے کہ صبر کیسے کیا جاتا ہے۔ والدین کی کمر اس وقت مکمل ٹوٹ جاتی ہے جب والدین کی جوان اولاد اس کے بڑھاپے میں اسکی آنکھوں کے سامنے اچانک فوت ہو جائے۔ نعیم کے والد کا
ہاتھ میں نے انکی کمر پر دیکھا تو یہ محاورہ یاد آ گیا کہ
”جوان اولاد والدین کی کمر توڑ کر رکھ دیتی ہے”.
نعیم کے والدِ گرامی کی حالت دیکھی نہ جا رہی تھی جب نعیم کی میت اٹھائی گئی اور پھر جب مرحوم نعیم کی میت پر مٹی ڈالی جا رہی تھی اس وقت نعیم کے والد راجہ ریاض قبر سے ہٹ کر کھڑے ہو گئے اور کبھی زمین کو دیکھتے تو کبھی آسمان سے گریا زاری کرتے مگر موت کا ایک وقت مقرر ہوتا
ہے وہ آ کر ہی رہتی ہے۔ آج راجہ نعیم کل میں پھر آپ اور اسکے بعد وہ یہ اور باقی سب یہ عارضی دنیا چھوڑ جائیں گے۔
وقت ہے جھونکا ہوا کا اور ہم فقط سوکھے پتے
کون جانے اگلے دسمبر تم کہاں اور ہم کہاں
نعیم بھائی کافی عرصے سے زیادہ بات چیت نہیں کرتے تھے بہت کم بولتے اور چپ کر کے دوسروں کی باتیں سنتے رہتے تھے۔ اکثر اپنی سوچوں میں گم رہتے۔ ہو سکتا ہے اسے معلوم ہو کہ میری زندگی بہت کم رہ گئی ہے۔ اور اسی بنا پر اپنی اولاد کے مستقبل کی خدو خال تراشتے رہتے اور پھر کبھی اچھا گمان تو کبھی پریشان ہو جاتے۔ یاد رکھیں کہ اپنے رشتوں کے بچھڑنے پر تو صحابہ کرام اور انبیاء بھی روے۔ لہذا رو دینا ایک فطری عمل ہے مگر نعیم کی موت پر ہر آنکھ نم ناک تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے محلے کے بچوں کا باپ ان سے بچھڑ گیا ہو۔ جیسے محلے کی بہنوں کا بھائی یک دم غایب ہو گیا ہو کہ جیسے محلے کی ماؤں کا پیارا بیٹا اچانک انگلی چھوڑ کر گم ہوگیا ہو۔ اور پھر جیسے ایک بیٹا اپنے باپ کی آنکھوں کے سامنے سسکیاں لے لے کر دم توڑ گیا ہو۔
جانے والوں کو کبھی کوئی روک پایا ہے۔ نہیں نا۔ تو پھر مجھے کہنے دیجئے
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
امجد ہم نے دونوں ہی کو بچتے دیکھا کم
بہت زیادہ غم میں بھی ہنس پڑتا ہے انسان
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم۔
میرے مالک نعیم بھائی سمیت جتنے افراد اس فانی دنیا کو چھوڑ گے ان سب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما آمین آمین آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں