راجہ محمد ظریف

وہ ایک بار اگر کسی سے ملتے تو ایک عشرے بعد بھی صرف ایک نظر سے دس برس قبل کا خاکہ اور اسکی مکمل تفصیل اس بھولے بسرے شخص کے سامنے رکھ دیتے یاداشت ایسی کہ کچھ مت پوچھیں۔ اپنے دشمن سے یوں ملتے جیسے وہ انکا بھائی ہو۔ یاد رکھیں بروز قیامت انسان کے اعمال تولے جائیں گے گنے نہیں جائیں گے اس دن ایک کھرب پتی کے کروڑوں اعمال اور ایک عام انسان کے چند اعمال ان کروڑوں اعمال پر بھاری نظر آئیں گے۔ جو شخص اس عارضی زندگی میں دکھاوے کی بجائے چپ کرکے دنیا والوں سے محبت کرتا رہا وہ کامیاب ترین ٹھہرے گا۔ راجہ محمد ظریف مرحوم اپنا اخلااق دریا سے نکلنے والی ندیوں کی صورت بہاتے اور انکے اس فعل کی بدولت ارد گرد بسنے والے بے شمار محرومیوں اور مسائل کے باوجود ایک دم تروتازہ ہو جاتے۔ یاد رکھیں بروز محشر اخلاق والا پلڑہ سب سے بھاری ہوگا۔ وہاں نہ تو دولت کام آئے گی اور نہ ہی ظاہری نمود و نمائش وہاں ہم سب کی نیتیں ہمارے باطن کو ظاہر میں تبدیل کر دیں گی اور اس اعمال کی کھلی گٹھڑی کو سب گھر والے اور دوست احباب ہمارے سامنے دیکھ رہے ہوں گے اور ہم وہاں سے ہل بھی نہ پائیں گے۔ زرا سوچیں اس براہ راست وڈیو کا منظر کیاہوگا جو ہمارے بھائی بہنیں بیٹیاں مائیں الغرض ہر رشتہ ہمارے اندر کو باہر سے دیکھ رہا ہوگا۔ کہا جاتا کے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ پروفیسر راجہ ظریف کے جنازے کے بعد ہر شخص کی آنکھیں نم تھیں کیوں کہ وہ اخلاق بانٹا کرتے تھے اور آسانیاں بانٹنے کا سب سے بہترین طریقہ اخلاق ہے۔ راجہ صاحب مجھے جب بھی ملتے دونوں ہاتھوں سے میرا چہرہ پکڑ کر بے حد محبتیں عطا کرتے۔ کسی بھی ہجوم میں راجہ ظریف صاحب کو دو منٹ بھی بیٹھنے کو نہ ملتے محفل کا سارا وقت لوگ ان سے ملتے رہتے اور یہ راجہ ظریف صاحب کے کردار کا منہ بولتا ثبوت ہے جس دن یہ درویش صفت انسان اس فانی دنیا کو خیر آباد کہ کر گئے اس دن میں بھی اس ہسپتال میں انکے پاس تھا آخری سانس کیبعد انکے بیٹوں کی حالت دیکھی نہیں جا رہیں تھی کیوں کہ وہ ایک باپ اور ایک شفیق دوست سے اچانک محروم ہوگئے تھے کچھ لوگ اس دنیا میں راحت و سکون بنا کر بھیجے جاتے ہیں جو فسادی افراد کو ایسے سدھارتے ہیں کہ انہیں اس وقت معلوم ہوتا ہے جب وہ مکمل طور پر راہ راست پر آ جاتے ہیں راجہ ظریف اس افراتفری کے دور میں امن کا سیدھا راستہ تھا۔ یہ شخص جنگ و جدل کو امن و آسودگی میں ایسے تبدیل کرتا تھا کہ جیسے ماضی میں کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ہزاروں افراد کو نئی پر امید زندگی کا شہسوار بنانے والی نایاب ہستی کانام راجہ ظریف مرحوم ہے تھا اور تاقیامت رہے گا۔
کوئی مر کر امر ہو گیا
کوئی زندہ بھی گمنام ہے
پروفیسر راجہ ظریف مر کر اپنے نیک اعمال کی بدولت آج بھی ہمارے سامنے ویسے ہی ڈٹ کر کھڑے ہیں جیسے ساری زندگی جگمگ کرتے رہے۔ زمانہ کچھ بھی کر لے یہ شخص اپنی بات سے رتی برابر بھی آگے پیچھے نہ ہوتا اور یہی خاندانی اور نسلی افراد کی پہچان ہوا کرتی ہے۔ نماز روزہ حج زکوۃ یہ سب تو ہم پر فرض ہے۔ مگر یاد رکھیں ابدی زندگی میں معاملات کی بدولت ہر انسان اپنے لئے جنت یا جہنم خرید ے گا۔
زندگی تیرے تعاقب میں یہ لوگ
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
راجہ صاحب کے حوالے سے بس اتنا کہوں گا کہ معاشرے میں نکھار پیدا کرنے والا ایک درخشاں باب بند ہو گیا ہے۔ اہل علاقہ اور اہل محلہ اور برادری کا باپ ہم سب کو یتیم کر گیا ہے۔
ہم نے کبھی بھی پیار سے دیکھا نہیں انہیں
دیکھا انہوں نے جب بھی دیکھا ہے پیار سے
ابھی تو بہت کم وقت گزرا ہے انکے بغیر ابھی تو کچھ دن ہوئے ہیں ان سے الگ ہوئے۔ مزید وقت گزرنے دیں پھر معلوم ہوگا ہم سب نے کتنا انمول ہیرا کھو دیا۔ تمام مسائل کا حل جس شخص کے پاس تھا اسے راجہ ظریف کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اللہ پاک قبر کی منازل آسان فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی قام عطا فرمائے آمین۔
ایک مصرع ملاحظہ فرمائیں اور یہی حقیقت ہے
”وہ جو مل گیا اسے یاد رکھ
جو نہیں ملا
اسے بھول جا
اسے بھول جا
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
دکھ تو اس بات کا ہے
اے جان حیات
اتنی لمبی رفاقتوں کے عوض
تو نے جاتے ہوئے
فقط اتنا کہا۔۔۔۔۔
جو ہوسکے تو مجھے بھلا دینا
سارے خط ہی میرے جلا دینا

اپنا تبصرہ بھیجیں