محمد مسعود بھٹی
بابائے اسا تذہ راجہ فضل الحق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ تقریبا دو دہا ئیوں سے زائد پنجاب ٹیچر یونین ضلع راولپنڈی کے صدر رہے چوہدری صغیر عالم اور ظفیر احمد ستی کے علاوہ انکے درجنوں کارکن ہر تحصیل میں موجود تھے۔بلاشبہ وہ ایک صاف گو اور نڈر لیڈر تھے۔ یہ انہی کا خاصہ تھا کہ 1982میں جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں بھی اساتذہ کے حقوق کیلئے اسلام آباد میں مظاہرے کی کال دی اساتذہ نے مظاہرہ کیا،گرفتار ہوئے جس کے نتیجہ میں کچھ مطالبات بھی منظور ہوئے۔ افسر شاہی اور بیوروکریسی کے ہر دور میں اساتذہ کی ٹرانسفر، پرموشن،مداعات اور ریٹائر منٹ کے موقع پر آسانی کے بجائے روڑے اٹکاتی رہی۔یہی وجہ تھی کہ اکثر ان کی افسران سے جنگ ہی رہتی تھی۔ غالبا 1990میں محمد الطاف علیانہ ضلع راولپنڈی میں D.E.Oتعینات ہوئے۔سکول وزٹ کے دوران ان کا انداز انتہائی تحکمانہ اور ہتک آمیزہوتا۔اساتذہ کو طلباء کے سامنے لائن میں کھڑا کر کے حاضری لینے اور گالم گلوچ کرنے کا سلسلہ بڑھتا گیا۔تو راجہ صاحب نے انہیں اپنا رویہ درست کے کی وارننگ دی مگر وہ افسرانہ ترنگ میں رہے۔راجہ صاحب نے انکے خلاف تحریک چلائی تحصیلی مقامات کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول اسلامیہ نمبر1مری روڈ میں بہت بڑا ااحتجاجی جلسہ کیا حالات کی نزاکت کو بھا پنتے ہوئے انتظامیہ نے علیانہ صاحب کی ٹرانسفر میں ہی عافیت سمجھی۔راجہ صاحب کا اعلان تھا کہ کوئی استاد اپنے کام کے لیے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس اور ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس میں ہر گز رشوت نہ دے بلکہ مجھ سے رابطہ کرے فری کام ہوگا اور واقعی ایسا ہوتا تھا یہی وجہ تھی کہ انکے سیاسی مخالفین اور مسلکی اختلاف رکھنے والے بھی ووٹ انہی کو دیتے تھے۔راجہ صاحب کا دعویٰ تھا کی اساتذہ کسی بھی دوسرے صوبائی محکمہ کے ملازمین سے زیادہ کام کرتے ہیں، اس ضمن میں خاص طور پر محکمہ مال اور محکمہ پولیس سے موازنہ کرتے تھے اساتذہ کو تدریسی فرائض مشنری جذبہ کے تحت ادا کرنے کی تلقین کرتے۔ بلکہ ان کو باور کراتے کہ تم پڑھے لکھے ہو لہذا اپنی برداری گاؤں اور علاقے میں اپنی موجودگی کا احساس دلاؤ تعلیم عام کرو،لو گوں کے مسائل میں دلچسپی لے کر حل کرنے کی کوشش کرو، جاہل لوگوں کے پیچھے مت چلو۔ اکژاس کا اظہار کرتے کہ M.P.Aاور M.N.Aعام لوگوں کے نمائندہ ہوتے ہیں جبکہ میں پڑے لکھوں کا نمائندہ ہوں۔راجہ صاحب تاریخ اسلام کے علاوہ پاکستان میں آباد قوموں کی تاریخ بخوبی آگاہ تھے۔ان ماننا تھا کہ بلاشبہ قومیں اور قبیلے صرف پہچان کے لیے ہوتے ہیں مگر ان کا انسان کے کردار پر ہی گہرا ثر ہوتا ہے۔ایک دن ایک مجلس میں اسی مو ضوع پر گفتگو ہو رہی تھی میں نے عرض کیا راجہ صاحب ہم بھٹی؛راجپوت؛ میں ہماری قوم کی کوئی خاصیت بتا ئیں کہنے لگے تمہاری قوم کے میں دُلا بھٹی کے علاوہ کوئی قابل قد آدمی نہیں گزرا۔ بھٹی اپنی قوم کے لوگوں کے بجائے دوسروں سے تعلق بڑھاتے ہیں آپس میں حسد کرتے ہیں ان کے خیال میں راجہ چوہان اور پکھڑال ہی جرات والی قومیں ہیں۔راجہ صاحب میرے تایا چوہدری محمد اسلم (مرحوم) والد محمد صادق بھٹی (مرحوم) موہڑہ دھیال، بابو محمد عارف (گہدر)، چوہدری منظور علی (مرحوم) پلونی چوآخالصہ مولوی غلام عارف (مرحوم) محمد فیض سابق ہیڈ ماسٹر میراشمس۔ چوہدری غلام مرتضیٰ بیول ہیڈ ماسٹر محمد افضل (مرحوم) قاضیاں،محمد رفیق (مرحوم) رکھ،راجہ لیاقت علی مرحوم ڈھوک بلندیاں راجہ ریاست مرحوم چوآخالصہ کے ساتھ خصوصی تعلق رکھتے تھے۔مذہبی،سیاسی،علاقائی،ملکی وبین الاقوامی معاملات پر سیر حاصل بحث کرتے۔ دلائل کسی کے بھی مضبوط ہوں راجہ صاحب ہی اپنے جارہانہ انداز کی وجہ سے اکثر حاوی رہتے۔ سید مودودیؒ کے لٹریچر سے حدمتاثر تھے۔تفہیم القرآن دستور جماعت اسلامی ماہانہ ترجمان القرآن ہفت روزہ ایشیا اور دیگر اسلامی کتب اکثران کے زیر مطالعہ رہیں۔ جماعت اسلامی کے باقاعدہ رکن تھے جماعت کے پروگراموں مظاہروں اپیلوں کے علاوہ جماعت کے مرکز منصورہ لاہورکی تربیت گاہوں میں اکثر شرکت کرتے انہیں سید مودودیؒ کے درس انکی مجلس میں بیٹھ کر سننے کا بھی شرف حاصل تھا خود کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سید مودودی نے صلہ رحمی پر درس دیا درس کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ تھا۔ میں نے پوچھا”مولانا بعض رشتہ داروں سے ملنا تو درکنار ان کے کرتوتوں کی وجہ سے دیکھنے کو بھی جی نہیں چاہتا ان سے صلہ رحمی کیسے کریں؟ تو مولانا نے فرمایا”راجہ صاحب مشکل کام ہے اس لیئے اس کا اجر بھی زیادہ ہے۔ اللہ کا حکم یہی ہے کہ جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو”جماعت اسلام سے اس قدر لگاؤ تھا کہ سرکاری ملازم ہونے کے باوجود قومی صوبائی الیکشن کے دوران جماعت کے امیدواروں کی بھرپور مہم چلاتے۔ جماعت کی پالیسوں پر اور ارکان جماعت کی غلطیوں پر خوب تنقید کرتے تھے۔ مگر کہتے کہ تمام خامیوں کے با وجود جماعت اسلامی ہی بہترین جماعت ہے۔صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد سات حج کیئے مگر اپنے نام کے ساتھ کبھی حاجی نہیں لکھا۔ حج پر جانے اور آنے کے کا انداز سب سے جدا تھا۔ نہ کسی کو جاتے ہوئے ملتے اور نہ آتے ہوئے تحفے لاتے۔ ایک دوست نے کہا راجہ صاحب حج تو صرف ایک فرض ہے باقی تو نفل عبادت ہے تو کہنے لگے میں نے دو وجوہات کی بنا پر اتنے حج کیئے۔ اول تو حرم پاک اور مسجد نبوی میں عبادت کرنے کا لطف ہی نرالاہے دوئم میرے والد، والدہ، دادا، دادی، نانا، نانی بغیر حج کیئے دنیا سے رخصت ہو گئے ان کی طرف سے حج کیئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی آخرت اچھی کرے۔
سفید شلوار قمیض، ویسٹ کوٹ، سر پر ٹوپی یا پگڑی ہاتھ میں کھونٹی کندھے پر سفید چادر، درویشانہ حلیہ تو تھا ہی، ساری زندگی اپنے گاؤں “انپر ” کے بجائے اپنی بہن کے گھر میرا موہڑہ کے ایک ایسے کمرے میں رہے جس کے پچھواڑے سے ایک کھڑکی میں سے داخل ہونا پڑتا تھا کمرے میں ٹوٹا ہوا فرش (سلیک) چند پرانی چارپایاں دیواروں پر بارش میں ٹپکنے کے آثار نمایاں نظر آتے تھے۔صبح و شام دو ٹائم کھانے کا معمول تھا۔ سادہ غذا پسندیدہ اور مرغن غذاؤں سے مکمل پرہیز۔85سال کے لگ بھگ عمرتھی مگر کو ئی قابل ذکر بیماری نہ تھی۔ مگر بڑھاپے کی باعث کمزوری تھی۔ البتہ آخری دو سال قوت ِ سماعت کچھ کمزور ہو گئی تھی مگر آواز کڑک دار تھی۔رواں برس 18اگست کو طیب محمود اور ریٹائرڈ ہیڈماسٹر محمد فیض کا ہمراہ ان کی رہائش اڈیالہ روڈ
راولپنڈی میں عیادت کی تو محمد فیض صاحب کے اصرارمیاں محمد کا یہ شعر بھی سنایا:
٭ مہند ی سب دکھ سہندی تاں تلی چڑھ بہندی کنگی گند مند سینے تے لہندی تاں زلفاں وچ رہندی
17دسمبر بروز جمعہ المبارک اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونے سے ان کی کے بچے تو یتیم ہوئے مگر اساتذہ بھی اپنے بابا سے محروم ہو گے اللہ تعالیٰ آخرت کی منازل آسان کرے اور جنت الفروس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے آمین
394