راجہ عابد حسین آف مانکراہ

تحصیل گوجر خان کے گاؤں مانکراہ نے یوں تو پوٹھوہار کے فنونِ لطیفہ میں شاعری ہو شعر خوانی (بیت بازی) ہو کبڈی ہو ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا دیا ہے آج جس شخصیت کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرنے جا رہا ہوں اس کا نام راجہ عابد حسین آف مانکراہ ہے اور القابات ”شیر پنجاب”(انجمن عاشقانِ اولیاء کھڑی شریف آزاد کشمیر پروگرام میں بابو غضنفر علی سجاد مرحوم) اور ” کنگ آف پوٹھوہار” (ہرکہ پروگرام میں دیا گیا) ہیں۔آپ راجہ محبت خان کے گھر 17 مئی 1960ء کو پیدا ہوئے تین بھائیوں اور ایک بہن میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ابتدائی دینی تعلیم اپنے چچا راجہ سلیمان سے حاصل کی جبکہ دنیاوی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول کلرسیداں سے 1976 ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1978/79 ء کے سیشن میں گارڈن کالج راولپنڈی سے ایف اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا گریجویشن مکمل نہ کر سکے اور کراچی جہاں آپ کے والد بسلسلہ روزگار مقیم تھے ان کے پاس چلے گئے۔

شعرخوانی میں آپ نے باضابطہ اور باقاعدہ 1973 ء میں زانوئے تلمذ تہہ کیا

بیت بازی کا شوق اپنے استاد سید فاروق حسین شاہ (جن کے دادا حکیم سید گلزار حسین شاہ قوال) کو دیکھ کر 1971ء میں ہوا اور آپ نے باضابطہ اور باقاعدہ 1973 ء میں زانوئے تلمذ تہہ کیا جبکہ پہلی باضابطہ محفل لٹوال سیداں تحصیل کلرسیداں میلے میں 1976 ء میں پڑھی (جس میں آپکے استاد سید فاروق حسین شاہ نے ستار بجائی)۔1980ء میں گاؤں چراہ میں چوہدری محمد اکرم گجر مرحوم کے ساتھ مشہور پروگرام ہؤا جس کے بعد 1984ء تک آپکی جوڑی نے علمی و ادبی حلقوں میں ٹکر کے پروگرام پڑھ کر خوب نام کمایا۔(نوٹ۔ اختلاف رائے علم حاصل کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے چہ جائیکہ وہ ادب و احترام کے دائرہ کار میں ہو راجہ عابد حسین اور چوہدری محمد اکرم گجر مرحوم کے درمیان ہمیشہ علمی و ادبی گفتگو دائرہ ادب میں رہی ہے)۔لیکن ناگزیر وجوہات کی بنا پر بعد میں 13 سال تک ہردو شخصیات کی محفل باوجود کوشش کے نہ ہو سکی جو بالآخر 1997 ء میں راضی نامہ کے بعد دو محافل (ہرکہ) اور (نگائل) میں انعقاد پذیر ہوئیں اور دونوں محافل نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے1983 ء میں وزارتِ صحت (Ministry Of Health) سیکریٹریٹ اسلام آباد میں ملازمت اختیار کی جو کہ مدت ملازمت مکمل کرنے پر 2012 ء میں ریٹائر ہوئے۔شادی 1990ء میں ہوئی جس سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔آپ کے شعراء میں پسندیدہ اور دوست مرزا شیر زمان ؒ سکرانہ ماسٹر حنیف حنفی (آستانہ عالیہ میر کلاں بادشاہ چنگا بنگیال) بابو غضنفر علی سجاد مرحوم دریالہ خاکی، بھٹی عجب ضیاء مرحوم اسلام آباد، غلام اکبر طالب عباسی مرحوم چوآ خالصہ، سلیمان راقب ہاشمی سوئیں حافظاں گوجر خان اور بلبلِ پوٹھوہار سائیں گل فیاض کیانی ؒشامل ہیں۔باقی دوستوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ وسیع حلقہ احباب ہے جن میں پوٹھوہار و کوہسار اور کشمیر سمیت دنیا بھر میں میرے فن کو پسند کرنے والے دوست موجود ہیں۔شاگردان میں راجہ ندیم اختر جاتلی، راجہ نازک کتھڑیل اسلام آباد چوہدری مختار گوجر خان حافظ ابرار ڈومیلی،جہلم، عبدالروف کیانی (اپر منڈی کشمیر)برطانیہ، چوہدری گلزار ہائی ویکم برطانیہ اور چوہدری کلیم ڈربی برطانیہ شامل ہیں

اکرم گجر مرحوم سے تیرہ سال بعد راضی نامہ ہوا‘لاتعداد بیرونی دورے بھی کیے

(بقول من و عن راجہ عابدحسین)آپ نے مختلف ممالک میں ثقافتی دورے بھی کیے جن میں 1995 ء میں پاکستان مرکز ابوظہبی میں پروگرام جبکہ 2016 ء اور 2017 ء میں متحدہ عرب امارات کے دورے شامل ہیں، سنہ 2000ء میں سعودی عرب میں بطورِ شاہی مہمان خصوصی دورہ کیا۔ 2001 ء سے 2018ء تک برطانیہ کے 10 ثقافتی دورے کیے جبکہ 2003 ء میں ہانگ کانگ کا دورہ کیا اس کے علاؤہ ملائیشیا، سنگاپور اور بنکاک کے ثقافتی دورے اور پوٹھوہاری ادب و ثقافت کی ترقی کے لیے خدمات سر انجام دیں۔ایوارڈ برائے حسن کارکردگی برلے کونسل برطانیہ، ادبی تنظیم برمنگھم برطانیہ سے ایوارڈ، آرٹس کونسل راولپنڈی سمیت پوٹھوہار کی مختلف تنظیموں اور انجمنوں کی طرف سے بیشمار ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔آپ نے اپنی یاداشتیں مجتمع کرتے ہوئے بتایا کہ 1984 ء تک خالصتاً بیت بازی ہوا کرتی تھی جبکہ میں نے اس میں ہارمونیم اور ڈھولک و طبلہ کو شامل کیا اور نئے رنگ میں سیف الملوک، گیت غزل گائیکی کی ترویج و اشاعت کی لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا کہ شعرخوان حضرات کو اگر تین گھنٹے محفل پڑھنا ہو تو دو گھنٹے مکمل بیت بازی (شعرخوانی) کریں اور ایک گھنٹہ عوام الناس کی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے لوک موسیقی یعنی سیف الملوک و دیگر گیت غزل گائیکی کریں۔آخر میں یہ پیغام دیا کہ فن شعرخوانی ادب و ثقافت کا حسین امتزاج ہے اور اس میں سیاست اور زاتی پسند ناپسند و پارٹی بازی کو ترجیح نہیں دینی چاہیے بلکہ اچھے فنکار کو اس کے فن و ثقافت کی خدمات پر خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔ سیاست اور تنقید برائے تنقید فن و ادب کے نقصان کا باعث بن رہی ہے لیکن تنقید برائے اصلاح و تعمیر نہایت ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں