راجہ صدیق اور نازیہ نیازمیں کانٹنے دار مقابلہ

قارئین کرام! راقم نے آج سے قبل کبھی آزاد ریاست جموں کشمیر کے انتخابات میں دلچسپی نہیں لی مگر اس بار حلقے کی بدلتی صورتحال دیکھ کر اور مختلف لوگوں کی مختلف آراء سن کر میں نے سوچا کہ اس پہ تحریر لکھی جائے اور لوگوں کو اس الیکشن کے چند بنیادی اور اہم معاملات کی جانب متوجہ کیا جائے، جہاں میں رہتاہوں یہ علاقہ پوٹھوہار میں شامل ہے،اٹک سے جہلم تک علاقہ پوٹھوہار کہلاتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ جموں 6 کا الیکشن بھی اسی ڈویژن میں بہت اہمیت رکھتاہے، میری اطلاعات کے مطابق اٹک، راولپنڈی، چکوال، جہلم، اس کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے دو اضلاع بھی اس حلقے میں شامل ہیں، بنیادی طور پر یہ حلقہ مہاجرین جموں و کشمیر کا ہے اور جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان آئے انہیں ووٹ کا حق دیا گیا اور یہ ووٹ کا حق وہ دونوں جانب یعنی آزاد ریاست جموں و کشمیر اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں (دونوں طرف) استعمال کرتے ہیں، اس وقت پاکستان پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف اپنے امیدواروں کا الیکشن کیلئے اعلان کرچکی ہے، جموں 6 میں راجہ محمد صدیق مسلم لیگ ن، ڈاکٹر نازیہ نیاز پاکستان تحریک انصاف اور چوہدری فخر زمان پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار نامزد ہیں، راجہ محمد صدیق کا تعلق اٹک سے ہے، ڈاکٹر نازیہ نیاز کا تعلق کوٹلی سے ہے مگر وہ گزشتہ 7/8 سال سے روات کلرسیداں روڈ پر ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہائش پذیر ہیں، چوہدری فخر زمان کا تعلق گوجرخان و مندرہ کے سنگم پہ واقع علاقہ گل پیڑہ سے ہے، راجہ صدیق 7 بار MLA کا الیکشن لڑے، جن میں 5بار کامیاب ہوئے، ایک بار الیکشن ہارے اور ایک بار بائیکاٹ کیا، چوہدری فخر زمان آج تک جتنے الیکشن لڑے ہار ان کا مقدر رہی، ڈاکٹر نازیہ نیاز نے آج تک الیکشن نہیں لڑا اور یہ ان کا پہلا باضابطہ الیکشن ہے، راجہ محمد صدیق نے جتنی بار بھی الیکشن لڑا پنجاب میں ن لیگ کی حکومت تھی اور ن لیگ اپنے امیدوار کو مکمل سپورٹ کرتی رہی اور ان کو ووٹ میاں نوازشریف کی وجہ سے ملتا رہا، دوسرا یہ کہ اٹک سے جہلم تک یہ حلقہ ن لیگ کی اکثریت کے طور پہ تصور کیا جاتاہے، چوہدری فخر زمان کو راجہ پرویزاشرف جیسے سابق وزیراعظم کی سپورٹ حاصل تھی اور حاصل ہے مگر وہ الیکشن میں ٹف ٹائم دینے میں نہ پہلے کامیاب ہوئے اور نہ ان کے اب کوئی چانسز ہیں، ڈاکٹر نازیہ نیاز کے شوہر کرنل (ر)ظفر کا ایم این اے حلقہ 57صداقت علی عباسی کی کامیابی میں بڑا کردار رہا ہے اور اب صداقت علی عباسی بھی ڈاکٹر نازیہ نیاز کو بھرپور سپورٹ کررہے ہیں، ڈاکٹر نازیہ نیاز آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی خواتین ونگ کی پہلی صدر رہ چکی ہیں، ڈاکٹر نازیہ نیاز نے اپنی سیاست کامحور تحریک انصاف کو ہی رکھا، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ الیکشن میں اس حلقے میں رجسٹرڈووٹ تقریباً 80ہزار کے قریب تھے لیکن اعتراضات، راجہ صدیق کی اسمبلی میں قراردادوں کے باعث ماسوائے متاثرین منگلا ڈیم کے آزادکشمیر سے آئے تمام کشمیریوں کے ووٹ خارج کئے گئے،ووٹ اندراج کرنے اور کرانے والوں سے بھی غلطیاں ہوئیں، اب رجسٹرڈ ووٹ کی تعداد تقریباً 36/37ہزار کے قریب ہے، جو کہ کسی بھی امیدوار کی کامیابی کیلئے مشکل صورتحال ہے،کیونکہ اب ایک وارڈ میں 30، 40اور 50 کے قریب ووٹ رہ گئے ہیں جو تینوں امیدواروں کو حاصل کرنے کیلئے بڑی تگ و دو کرنی پڑے گی، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ راولپنڈی ڈویژن اور بالخصوص تحصیل گوجرخان کے مہاجرین جموں و کشمیر راجہ محمد صدیق سے سخت نالاں ہیں کیونکہ راجہ صدیق نے پانچ بار منتخب ہوکر بھی اپنے ووٹرز کیلئے اسمبلی میں کوئی بات نہیں کی، ان کے مسائل کے حل کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا، نہ ترقیاتی فنڈز مختص کرائے، نہ نوکریوں کے کوٹے میں کسی کو بھرتی کرایا، نہ مہاجرین کو الاٹ ہونے والے پلاٹس میں کسی کو شامل کیا، راجہ محمد صدیق پر یہ بھی الزام ہے کہ موصوف نے اٹک میں اپنے قریبی چند افراد کو پلاٹس سے نوازا، چند ایک کو بھرتی بھی کرایا لیکن جس طرح کی محبت مہاجرین جموں و کشمیر نے چار بار منتخب کرکے انہیں دی اس کا
وہ صلہ نہیں دے سکے، راجہ صدیق فاتحہ خوانی، جنازے اور ولیمے اٹینڈ کرنے کی وجہ سے بھی مشہور ہیں لیکن گزشتہ چار سالوں میں ان کی سرگرمیاں انتہائی محدود رہیں، دوسری جانب چوہدری فخر زمان کے حالات بھی کچھ مختلف نہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کیساتھ تعلقات اپنی جگہ لیکن ووٹر کیساتھ تعلق رکھنا بہت ضروری ہوتاہے، راجہ پرویزاشرف نے وفاقی وزیر اور بعد ازاں وزیراعظم بن کر عوام سے بالکل تعلق ختم کر لیا تھا جس کا انہیں خمیازہ 2013کے الیکشن میں بھگتنا پڑا تھا، چوہدری فخر زمان نے لوگوں کے جنازے، ولیمے اور فاتحہ خوانی تک ترک کر دی اور اب الیکشن آنے پہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں مگر عوام تو بدلہ خوب لینا جانتی ہے، فخر زمان کا موجودہ الیکشن میں میرے نزدیک کوئی خاص حصہ نہیں بنتا، اس وقت لوگ پیپلز پارٹی سے اتنے ہی متنفر ہیں جتنے وہ 2018کے الیکشن میں تھے، ڈاکٹر نازیہ نیاز چونکہ حکمران جماعت سے تعلق رکھتی ہیں، راولپنڈی ڈویژن میں سارے ایم این ایز، ایم پی ایز اور حکومت بھی ان کو سپورٹ کررہی ہے، خاتون ہونے کے ناطے بھی ان کی کمپین ہر جگہ اچھی جارہی ہے تو میرے تجزیئے کے مطابق اس الیکشن میں کانٹے دار مقابلہ راجہ محمد صدیق اور ڈاکٹر نازیہ نیاز کے مابین ہونے جا رہاہے، جیت جس امیدوار کا مقدر بنے گی وہ چند سو ووٹ کے فرق سے کامیاب ہوگا۔ والسلام

اپنا تبصرہ بھیجیں