جو بچہ آج پیدا ہوا ماں اس کو اٹھا سکے گی یا نہیں، باپ اس کا گالوں پر بوسہ دے سکا گا یا نہیں، نانی اور دادی کی گود میں کھیلے گا یا نہیں، باپ اس کو سکول چھوڑنے جاسکے گا یا نہیں
وہ بچہ تعلیمی منازل طے کرتا ہوا ماں باپ کے خوابوں کی تعبیر بن سکے گا یا نہیں یہ ساری باتیں حقیقت میں بدل سکیں گی یا نہیں، لیکن ایک سب سے بڑی حقیقت ہے کہ جو بچہ آج پیدا ہوا ہے
اس نے ایک دن اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانا ہے کیونکہ اس دنیا کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے۔قرآن عظیم الشان میں تین مقامات پر آیا ہے کہ ہر ذی روح نے موت کا زائقہ چکھنا ہے
۔یہ وہ حقیقت ہے جس کا ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں ابھی چند دن پہلے ہمارے ایک بہت پیارے بھائی، بہت محبت کرنے والے اور ہر شخص سے ہمدردی رکھنے والے ہمارے بھائی راجہ شاہد محمود نے اس حقیقت کو پالیا مندھال سے محترم بھائی ملک صغیر نے توجہ دلائی اس ہفتے کی ڈائری محترم بھائی راجہ شاہد محمود کے حوالے سے لکھیں۔
۔راجہ شاہد محمود 19 اگست 1971 پیال میں محمد بنارس کے گھر پیدا ہوا، انھوں ابتدائی تعلیم پیال پرائمری سکول سے حاصل کی پھر میٹرک کا امتحان انھوں جھٹہ ہتھیال ہائی سکول سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا اس کے بعد PST کا کورس مکمل کیا
اور 1997 میں پرائمری سکول ٹیچرکے طور پر سروس جوائن کی ابتدائی طور چھ ماہ کے لیے مانکیالہ میں رہے اس کے بعد باغ سانگرہ میں تین سال ٹیچر کی ڈیوٹی ادا کی اس کے بعد میرا موڑہ میں چودہ سال رہے
پھر تین سال کالی پڑی میں ٹیچر کی ڈیوٹی ادا کی پچھلے سات سال سے جھٹہ ہتھیال ہائی سکول میں ٹیچر تھے 2005 ان کی شادی ہوئی اللہ نے ان چار بیٹیاں عطا کئیں سب سے چھوٹی بیٹی کی عمر پانچ سال ہے۔ 2012 میں انھوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے گریجویشن کی،وہ اپنے گاؤں کی کرکٹ ٹیم کے کیپٹن بھی تھے
وہ سکول کے زمانے میں 1986 میں ایک حادثے کا شکار ہو چکے تھے جب وہ گھر کے لئے مٹی کھود رہے تھے تو مٹی کا ایک بڑا تودہ سلائڈ ہوکر ان پر آگیا تھا وہ نیچے دب گئے تھے اللہ نے ان کو نئی زندگی دی تھی
لیکن ان کی ٹانگ کا فریکچر ہو گئی تھی اب وہ الحمدللہ بالکل صحت مند تھے کچھ عرصہ پہلے تک وہ کرکٹ ٹیم کے کیپٹن کے طور بھرپور کرکٹ کھیلتے رہے، وہ بہت ہی ہنس مکھ انسان تھے
لیکن کچھ عرصے سے ان کو دل کی تکلیف بھی ہوگی تھی لیکن 6 نومبر ان کا اپنے رب کی طرف سے بلاوا آگیا اور وہ دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خالق حقیقی سے جاملے ان کے دو بھائی ہیں زائد محمود بڑے بھائی ہیں اور طاہر محمود چھوٹے بھائی ہیں، ان کی شادی سابق کونسلر جناب حاجی لیاقت صاحب مرحوم کی صاحبزادی سے ہوئی
تھیسکول ڈیوٹی کے حوالے یہ کہ وہ کبھی بھی سکول سے مس نہیں کرتے اپنی ڈیوٹی بھرپور طریقے سے پرفارم کرتے تھے اس چیز کی گواہی ان کے ہیڈماسٹر جناب ملک اعجاز احمد صاحب، اساتذہ اکرام بھی دیتے ہیں
خاص کرکے میرے مہربان بھائی ملک صغیر صاحب گواہی دی کہ وہ ڈیوٹی کے حوالے سے بالکل لاپرواہی نہیں کرتے تھے محترم جناب راجہ شاہد محمود، میرے بھائی چوہدری ظفر صاحب اور ملک صغیر صاحب جھٹہ ہتھیال ہائی سکول میں میٹرک کے کلاس فیلو بھی ہیں
اس چیز کی گواہی ان کے قریب رہنا والا ہر فرد دیتا ہے وہ ایک ہمدرد انسان تھے،محبت کرنے والے، خیر خواہی کرنے والے اور دوسروں کے سراپا خیر تھے
، خاندان میں بھی ہر فرد سے ہمدردی اور خیر خواہی ان کا وصف تھا پھر ان کی موت کی اطلاع پر سکول کے ہیڈ ماسٹر جناب ملک اعجاز صاحب نے بالائی اتھارٹی سے اجازت لیکر سکول میں چھٹی کردی پھر بہت ہی خوبصورت منظر تھا جب سکول کا تمام سٹاف اور بچے سکول سے پیال پیدل ایک لائن میں کلمہ کا ورد کرتے
بلند درود شریف پڑھتے ہوئے جنازے میں شریک ہوئے پھر جنازہ میں سکول کے بچوں نے اپنے اساتذہ اکرام کی راہنمائی میں اور اپنے ہیڈ ماسٹر ملک صاحب اعجاز صاحب کی قیادت گارڈ آف آنر پیش کیا
اپنے عظیم اور مہربان استاد کو کلمہ اور درودشریف کا ورد کرتے ہوئے قبر میں اتارا اس طرح سکول کے بچوں اور اساتذہ نے ایک خوبصورت روایات قائم کی،اللہ تعالیٰ ہمارے مرحوم بھائی راجہ شاہد محمود کی اگلی ساری منازل آسان فرمائے
بلاشبہ موت ایک اٹل حقیقت ہے اس زندگی کی سب سے بڑی حقیقت موت ہے سورہ طہ میں نے اللہ نے فرمایا ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا تمہیں مٹی لوٹائیں گے پھر مٹی سے اٹھائیں گے۔(آیت نمبر 55 پارہ سولہ