راجہ حفیظ خان ہر شخص کے ساتھ مخلص انداز میں پیش آتے تھے۔ آپ کے والد گرامی کا نام راجہ بہادر خان ہے۔ آپ کے چار بیٹے ہیں جنکے نام ملاحظہ فرمائیں راجہ حماد حفیظ، راجہ عثمان حفیظ، راجہ جنید حفیظ اور راجہ حامد حفیظ ہیں
میں جب بھی خالو حفیظ کو سوچتا ہوں تو مجھے انکی درویش صفت خصوصیات دل و دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ آپ پنجاب پولیس میں سب انسپیکٹر تھے اور ایس ایچ او کی جاب سے ریٹائرڈ ہوئے
دوستو یاد رکھنا یہ بندہ پولیس میں ہو کر بھی غریب اور نادار افراد کی چپکے سے مدد کرتا تھا اور دوسرے ہاتھ کو خبر بھی نہیں ہوتی تھی۔ جھے دس برس پہلے کسی پولیس والے نے بتایا کہ جب کوئی غریب یا مثبت سوچ کا مالک انکے پاس آتا تو ہم سب کو کہتے آپ میرے آفس میں آ جائیں اور میرے سبق کو غور سے دیکھیں۔
ہم سات یا دس ملازمین انکے پاس بیٹھ جاتے اور پھر انکے جملے اور الفاظ سن کر دس میں سے ساتھ افراد کی آنکھوں سے آنسوؤں کی برسات نچھاور ہونے لگتی اور ان افراد کی آنکھوں سے بھی پانی آتا جو کبھی نہیں روتے تھے
اور چار ماہ بعد وہ افراد بھی درست ہو گئے جو ساری زندگی منفی ڈگر پر چلتے رہے۔ پھر ہم سب نے اپنے اندر کے معاملات کو یوں محسوس کیا کہ جیسے ہم پرسکون ہو گئے ہوں
ہم سب نے اسکے بعد کبھی نماز نہیں چھوڑی بلکہ ہم سب نے تحجد بھی پڑھنا شروع کردی اور ہم سب کی نیکیاں ہمیں تو ملیں گی مگر ہم سبکی نیکیاں ایچ ایچ او راجہ حفیظ کو ساری زندگی ملتی رہیں گی اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی انشاء اللہ۔
راجہ حفیظ خان مرحوم پوٹھوہار کے سب سے بڑے قصبے ساگری کے رہائشی ہیں۔ جہاں ارد گرد 20 سے زیادہ سکولز، کم از کم 15 سے زیادہ مساجد اور لڑکے اور لڑکیوں کے دو کالجز ہیں
۔ آپ نے ساری زندگی مساجد کی خدمت کی اور یہ دنیا چھوڑنے سے چار دن پہلے کسی فرد کو کہا کہ جب میں دنیا چھوڑ جاؤں گا تو آپ نے اس مسجد کی زمہ داری اپنے کندھوں پر لے لینی ہے۔ اور پھر کیا ہوا کہ”زندگی یکسر بدل گئی”.
چار دن بعد وہ گھر کے باہر گلی کی صفائی کر رہے تھے تو اچانک دل کا دورہ پڑا اور انکے بیٹے والد کو راولپنڈی RIC لے کر گئے۔ ہسپتال تک باتیں کررہیتھے۔
ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی مگر جب اللہ کی زات کسی کو اپنے پاس لانا چاہے تو پھر ہم سب کچھہ بھی نہیں کرسکتے۔ جانے سے دس منٹ پہلے میرے خالو نے اپنے بچوں کو ایک بہترین سبق اور بہترین سوچ دے
کر اچانک اللہ کے پاس چلے گئے اور وہ سبق یہ تھا۔ زرا غور سے سنیں
اس نے جانیں سے پہلے
ایک فقرہ
میرے آنچل سے باندھ دیا
“I,ll miss you”
پھر سارا سفر خوشبو میں بسا رہا
مگر یاد رکھیں کہ یہ خوشبو جس کے دل و دماغ میں سما جاتی ہے آپ زرا اس سیکبھی الگ ہو کر پوچھنا کہ اسکے اندر اور باہر کے غم کبھی دائیں تو کبھی دوسری طرف کہرام مچا رہے ہیں۔
جب کسی شخص کی اچانک وفات ہو جائے تو پھر انکے بیٹوں بیٹیوں اور زوجہ سے جا کر کبھی پوچھنا کہ وہ کس کرب سے گزر رہے ہیں۔ جب میں نے انکے بیٹوں کو گلے لگایا تو وہ مجھے چھوڑ نہیں رہے تھے۔
سب نے کم از کم مجھے پانچ منٹ تک گلے لگا کر دھاڑیں مار کر روتے رہے مگر جب میں عثمان کے پاس گیا تو اس کے ایک جملے نے مجھے سکتے میں ڈال دیا اور وہ جملہ یہ تھا
“شاہد بھائی میرے والد محترم اچانک اللہ کے پاس چلے گئے”.بس یہ جملہ سنا اور میں بھی دھاڑیں مار کر روتا رہا اور میرے آنسوں ندی کی لہروں کی طرح عثمان کے کندھوں پر گرتے رہے
اور پھر مجھے معلوم ہوا کہ جب میرے والد گرامی فوت ہوئے تھے تو میں ہر روز کمرے کا دروازہ بند کر کے مغرب کے بعد ایک ہفتہ روتا رہا۔ میرے بھائی کی موت بھی ایکسیڈینٹ سے ہوئی
اور پھر وہی سما تھا جو آج راجہ حفیظ خان مرحوم کے گھر والے گھر کے کونوں میں خالو حفیظ مرحوم کو سارا دن ساری رات تلاش کرتے رہتے ہیں مگر یاد رکھنا جو یہ فانی دنیا چھوڑ جاتا ہے
وہ کبھی واپس نہیں آتا وہ ہم سب کو آخری اور اگلی دنیا میں ملیگا انشاء اللہ۔ حفیظ مرحوم نے تمام بیٹوں کو الگ الگ گھر بنا کردئیے بہووں کو ایسے سکون دیتے تھے کہ جیسے وہ اپنی بیٹیوں کو عیش و آرام کی طرح نوازتے تھے۔
اردگرد کے تمام افراد کی مدد کرتے تھے مگر گھر والوں کو ہرگز نہیں بتاتے تھے۔ مگر یاد رکھنا جس کی مدد کرتے تھے وہ ساری دنیا کے سامنے نمودار ہو کر ہی رہتی ہے جو ہم کو منفی سے مثبت کی طرف لیکر آتی ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ میرا مالک مرحوم راجہ حفیظ خان کے درجات بلند فرمائے اور جنت کے باغات میں سے انہیں پھولوں اور درختوں کا بہترین باغیچہ عطا فرمائے۔
اگر زندگی میں ان سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہو تو میرا مالک اس غلطی کو معاف فرمائے اور انکی نیکیوں کو ستر گناہ کر کے انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
زندگی تیرے تعاقب میں یہ لوگ
اتنا چلتے ہیں کہ مر جاتے ہیں