راجا اویس کا گلدستہ نعت”متاع”

columns
writer

نعت گوئی کا آغاز سب سے پہلے عربی زبان میں ہوا اور عربی سے اس کا رواج فارسی اردو اور دیگر دوسری زبانوں میں ہوا اردو کے لاتعداد شعراء گزرے اور موجود ہیں لیکن نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہنے کی وجہ شہرت بہت کم شعراء کو نصیب ہوئی ہے اصل میں مداح رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت خوش قسمت و خوش بخت لوگوں کو ہی حاصل ہوتی ہے ان خوش نصیب و خوش بخت لوگوں میں ایک نام راجہ اویس کا بھی ہے ان کا تعلق تحصیل گوجر خان کے گاوں موہڑہ بھٹی چھینہ یونین کونسل کنیٹ خلیل سے ہے وہ کافی عرصہ سے نیویارک امریکا میں مقیم ہیں اللہ تعالیٰ نے جوانی کی عمر میں ہی انہیں بڑی عزت و شہرت سے نوازا ہے اردو کے بڑے بڑے شعراء کے ساتھ مشاعروں میں شریک ہوتے رہتے ہیں وہاں اپنا کلام پیش کر کے داد تحسین سمیٹتے رہتے ہیں وہ اردو پنجابی اور پوٹھوہاری تینوں زبانوں میں بیک وقت شعر کہنے کا ملکا رکھتے ہیں اور کہتے بھی ہیں ان کا خاص میدان نعت گوئی ہے اس کرم کا میں کروں شکر کیسے ادا۔ دیکھیں رہتے کس ماحول میں ہیں جو مادر پدر آزاد ہے جہاں دین کی کسی کو پرواہ نہیں جو کچھ ہے دنیا کی موج مستی ہی ہے لیکن ان پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل وکرم اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی خاص نظر کرم ہے کہ اس ماحول میں بھی ان کا اوڑھنا بچھونا عشق و اتباع وادب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے وہ 2015 سے باقاعدہ شاعری کر رہے ہیں ان کا پہلا شعری مجموعہ شائع ہوا ہے تو وہ بھی نعت شریف کا۔ ان کے اس شعری مجموعہ کا نام ”متاع” ہے نعت کہنا سب سے مشکل فن ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ نعت کہنا دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے کیونکہ نعت میں بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات و معجزات کا ذکر کیا جاتا ہے بارگاہ نبوت کے مقام و مرتبہ کے مطابق الفاظ کا چناؤ ضروری ہوتا ہے ذرا سی لغزش بلندیوں سے پستیوں کی طرف لے جاتی ہے راجہ صاحب کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے علوم عصریہ کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ کی بھی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے علوم قرآنی اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہوں نے مشہور اساتذہ سے سبقاً سبقاً پڑھے ہیں اس لیے وہ بارگاہ نبویصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ وآداب سے بخوبی آگاہ ہیں راجہ اویس نے اپنے اس نعتیہ مجموعہ کا نام متاع رکھا ہے جس کا معنی ہے جمع پونجی کتاب کے نام میں ہی راجہ اویس نے اپنا عقیدہ بیان کر دیا کہ وہ صرف تسکین ذوق یا نمود نمائش کے لئے نعت نہیں کہتا بلکہ وہ اسے عبادت سمجھ کر کرتا ہے اس کا عقیدہ اور ایمان ہے یہ تعریف و توصیف مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے توشہ آخرت ہے میں نے ان کی بہت بڑی خوبی دیکھی جو دیگر شعراء کے کلام میں کم دیکھنے کو ملتی ہے وہ ہے قرآنی آیات و احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مفہوم اور سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعات کو بڑی خوبصورتی سے اپنے اشعار میں بیان کرنا جیسے اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں حضور اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سے اپنی آوازوں کو پست رکھنے کا حکم دیا اور دوسرے مقام کے بارے میں حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ”راعنا“ کہتے تھے یعنی ہماری رعایت فرمائیں یہود کی لغت میں یہ لفظ بددعا کے لیے تھا اور اس کا معنی تھا سنو! تمہاری بات نہ سنی جائے تو اللہ تعالی نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس لفظ کے ساتھ رسول مقبولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرنے سے منع فرما دیا راجہ اویس ان آیات کے مفہوم کو اپنے اشعار میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں
شہر آقا میں تو آواز بھی اونچی نہیں دوست یہ مدینہ ہے کوئی عام سی بستی نہیں دوست
ان کو آواز دینے کے ہیں آداب اب راعنا جیسی کوئی لفظی گرانی نہیں دوست
وہ اسی طرح انتہائی خوبصورت الفاظ کا چناؤ کرتے ہوئے فضائل و معجزات مصطفیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو احادیث مبارکہ میں ذکر ہوئے ہیں جیسے کھجور کے تنے کا نبی کریمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں رونا کوڑا پھنکنے والی عورت کی عیادت کو جانا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی نماز عصر کے لیے سورج کو پلٹانا ان بڑے بڑے واقعات کو لفظوں میں بیان کر کے قاری کو دور محبوب خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لے جاتے ہیں قاری ان واقعات میں پوشیدہ عشق و مستی کی کیفیات میں کھو جاتا ہے جیسے
پوچھتے ہو میرے حضور کا عشق ان سے دیکھو ذرا کھجور کا عشق
محمد مصطفی آ جائیں گے اسکی عیادت کو یہ کوڑا پھینکتی بڑھیا نے بھی سوچا نہیں ہوگا
کہیں بھی حضرت آدم سے لے کر انکی آمد تک کسی کے حکم پر سورج کبھی پلٹا نہیں ہوگا
اسی طرح وہ اپنے مسلمہ عقائد کا اظہار بڑی خوبصورتی سے کرتے ہیں
لپیٹ ان کے وسیلے میں ہر دعا اپنی نبی کا اسم گرامی ذرا پکار کر دیکھ
نہیں خدا وہ خدا سے مگر جدا بھی نہیں تو اپنی ٹیڑھی سی عینک ذرا اتار کر دیکھ
وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں پیدا ہونے کی معصوم خواہش کو اس طرح نظم کے قالب میں ڈھالتے ہیں
کاش میں ہوتا حلیمہ سعدیہ کے گاؤں سے کاش میں بھی دیکھ لیتا بچپنا مختار کا
کاش انکے دور میں یہ زندگی ملتی مجھے کاش ہوتا میں بھی اک دیکھا ہوا سردار کا
انکی چوکھٹ پر صدا دینے سے پہلے سوچتا جانتے ہیں حال راجہ وہ دل بیمار کا
ان کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اشعار اکثر چھوٹی بحر میں کہتے ہیں ان کو یہ ملکہ حاصل ہے کہ اس چھوٹی بحر میں بھی قاری کو اپنا مافی الضمیر بڑی آسانی سے سمجھا دیتے ہیں
مدینہ میں رہے مسکن مدینہ ہی بنے مدفن
کبھی تو دیکھ لوں میں بھی وہ غار ثور کا روزن
مختصراً یہ کہ وہ صحابہ کرام و اھل بیت نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور ان سے محبت و عقیدت کا اظہار بڑے سلیقے اور قرینے سے کرتے ہیں خاص کر اس کتاب میں خالق و مخلوق آقا و بندے عبد و معبود کے مرتبے اور درجے کو ملحوظ رکھتے ہوئے حمد و نعت پیش کیے گئے ہیں یعنی حمد ونعت کی حدود سے ذرا برابر تجاوز نہیں کیا گیا راجا اویس نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عقیدت و محبت کی رو میں بہہ کر کہیں بھی افراط و تفریط سے کام نہیں لیا یہی چیزیں اس کتاب کو ممتاز بناتی ہیں یہ کتاب راجہ اویس کی کاوش سے زیادہ ابرکرم محسوس ہوتی ہے جس کا انہوں نے تذکرہ بھی کیا
کیسے وہ بیان تم سے کروں لطف کا عالم ہوتے ہیں عطا جبکہ مجھے نعت کے الفاظ
اسی لیے اس کے ہر لفظ میں عشق و مستی کی مہک آتی ہے محبت و ادب رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوبی ہوئی کیفیات کی حدت محسوس ہوتی ہے یہ معجزات و سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بکھرے ہوئے موتی ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں