246

ذی الحجہ مسائل و احکام

یوں توہرماہ میں کچھ ناکچھ تاریخی واقعات رونماہوئے جو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ یادرکھیں جائیں گے مگرچندماہ کیاندرچندایام ایسے ہیں جن کے فضائل ومناقب اجروثواب کی فضیلت واہمیت کے بار ے میں قرآن وحدیث میں واضح احکام موجودہیں جیساکہ نبی اکرم شفیع اعظمﷺنے ارشادفرمایاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے عشرہ ذی الحجہ سے بہترکوئی زمانہ نہیں ان میں سے ایک روزہ ایک سال کے برابر ایک رات کی عبادت شب قدرکی عبادت کے برابرہے

قرآن مجیدمیں رب العالمین نے سورہ والفجر میں دس راتوں کی قسمیں کھائی ہیں اور جمہورکے قول کے مطابق اس سے مرادذی الحجہ مراد ہیں اور بالخصوص نویں ذی الحجہ کاروزہ رات میں بیداررہ کر عبادت کرنا بھی فضیلت اور ثواب سے خالی نہیں اس ماہ میں فضیلت والے کام بھی ہیں جیسا کہ تکبیر تشریق کہنا،حج بیت اللہ جیسااہم فریضہ اداء کرنا،عیدالاضحیٰ کی ادائیگی،سنت ابراہیمی پرعمل کرتے ہوئے قربانی کرنا،سنت ابراہیمی زندہ کرناوغیرہ نویں تاریخ کی صبح سے تیرویں ذی الحجہ کی عصرتک ہرنمازکے بعدبآوازبلندایک مرتبہ تکبیر کہناواجب ہے اور وہ یہ ہے اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الااللہ واللہ اکبرواللہ اکبروللہ الحمد ہرنمازی پریہ تکبیر کہناواجب ہے

اکیلا نمازکوئی پڑھے یا جماعت کیساتھ مرد ہو یا عورت اس میں سب برابر ہیں ہاں البتہ عورت کیلئے یہ ہے کہ وہ آہستہ پڑھے پھرعیدکے دن صبح سویرے اٹھاجائے غسل مسواک کرنا پاک صاف عمدہ کپڑے پہنیں جائیں خوشبو لگائی جائے نمازسے پہلے کچھ نا کھائے عیدگاہ کوجاتے ہوئے راستہ میں بآواز بلند تکبیرکہے نماز عیدکی نماز زائد چھ تکبیرات سے اداء کریں نمازکے بعد خطبہ بھی سننے کا اہتمام کرناچاہیے خطبہ سے قبل اٹھنادرست نہیں قربانی صاحب استطاعت پر واجب ہے کیوں کہ رسول اکرم شفیع اعظمﷺنے ہجرت کے بعد ہرسال اہتمام سے قربانی کی نا کرنیوالوں پر وعیدیں بھی آئیں ہیں

جیساکہ نبی کریم روف الرحیم نے ارشاد فرمایا کہ جوشخص قربانی ناکرے وہ ہماری عیدگاہ میں ناآئے حضرت زید بن ارقم رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین نے رسول اللہﷺ پوچھا یہ قربانی ہمارے لئے کیا ہے توآپﷺ نے ارشاد فرمایاقربانی تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے صحابہ کرام نے پوچھا ہمارے لئے اس میں کیا ہے توآپ نے فرمایا اسکے ایک ایک بال کے عوض ایک نیکی اون کے عوض بھی نیکی ہے

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسولِ خدا نے فرمایا قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی اور عمل محبوب نہیں قیامت کے دن جانور سینگوں بالوں کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور یہ جا نو ر کے خون زمین پرگرنے سے قبل ہی اللہ کے ہاں مقبول ہوجاتاہے اس لئے قربانی خوش دلی سے کیا کریں قربانی شعائر اسلام میں سے ہے اسکی شرائط وآداب کوملحوظ خاطر رکھناچاہیے قربانی کا جانورخوب دیکھ بھال کرخریدیں جن عیوب سے پاک ہوناچاہیے اس میں غفلت ہرگزنہیں کرنی چاہیے

قربانی عیدکے تین دنوں میں ہی کرنی چاہیے 10,11,12ذی الحجہ کوقربانی کاوقت دسویں ذی الحجہ کی صبح سے لیکربارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے تک قربانی درست ہے اس دوران اگرضرورت سے زائد اتنا مال اگرکسی کے پاس ہوجائے جومالیت کے نصاب کو پہنچ جائے تواس شخص پرقربانی لازم ہے ہرعاقل بالغ مقیم صاحب نصاب پرقربانی لازم ہے قربانی کا جانور خود ذبح کرنا بہتر ہے اگرخود نا ذبح کرسکے تودوسرے سے بھی ذبح کرواسکتا ہے قربانی کرتے وقت تکبیر پڑھیں

بعض اوقات قصاب کے چھری پھیرتے وقت لوگ خود بھی چھری پر ہاتھ رکھتے ہیں اس صورت میں دونوں تکبیر پڑھیں قربانی کرتے وقت دل میں نیت کرلی توبھی کافی ہے قربانی کا جانورذبح کرتے وقت قبلہ رخ کریں دعا اس کے بعد تکبیر پڑھ کرذبح کردیں قربانی اونٹ، اونٹنی، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، گائے، بیل، بھینس، بھینسا،کی درست ہے بھیڑ،بکری،بکرا،دنبہ،کے علاوہ بڑے جانورمیں سات آدمی بھی شریک ہوسکتے ہیں گائے،بھینس،اونٹ میں سات سے کم افراد بھی شریک ہوسکتے ہیں

اگرکسی کا قربانی والاجانورگم ہوگیا توصاحب حیثیت پر دوسرا جانور خریدنا ضروری ہے کیوں کہ اس پر شرعاً قربانی واجب تھی اور واجب اداء نہیں ہوا،بھیڑ،بکری کی عمر ایک سال،گائے بیل،بھینس کی عمردوسال،جبکہ اونٹ کی عمر قربانی کے وقت پانچ سال ہونی چاہیے،قربانی کاجانوراگر اندھاہے،ایک آنکھ کی ایک تہائی سے زائد نظرجاتی رہی ہو، یا ایک کان ایک تہائی یااس سے زائدکٹ گیا ہو،یادم ایک تہائی یا اس سے زائدکٹ گئی ہو،توایسے عیب دار جانورکی قربانی جائزنہیں گائے بھینس کے دوتھن ضائع ہوچکے ہیں یا بکری کا ایک تھن توایسے جانورکی قربانی بھی درست نہیں،اگرکسی جانورکا ایک پاؤں لنگڑا ہوجس کا وہ سہارا بھی نہیں لیتا تو ایسے جانورکی قربانی بھی جائز نہیں

اگر کسی جانورکے تمام دانت ٹوٹ جائیں تو اسکی قربانی جائز نہیں اگر اکثرباقی ہوں کچھ ٹوٹے ہوں توجائزہے،جس جانورکے سینگ جڑسے ٹوٹ گئے ہوں جس سے اس کادماغ بھی متاثر ہو تو اسکی قربانی جائز نہیں،قربانی کاجانور ذبح کرتے وقت گراتے وقت کچھ ٹوٹ جائے جیسے ناک کی ہڈی یاسینگ تواسکی قربانی جائز ہے،قربانی کے گوشت میں بہتریہی ہے کہ اس کے تین حصے کریں ایک حصہ اپنے لئے رکھیں ایک حصہ اپنے رشتہ داروں کے لئے اور ایک حصہ غرباء،فقراء،اور مساکین کودیدیں،قربانی کی کھال کسی مستحق کودیدیں یا فروخت کرکہ اسکی قیمت فقراء کودیدیں البتہ سب سے بہتر صورت یہی ہے کسی دینی ادارے کودیدیں کیوں کہ اس سے علم دین کااحیاء ہوگا جوسب سے بہترہے قربانی کی کھال قصائی کوبطوراجرت دینا جائز نہیں،قربانی کاجانورذبح کرتے وقت چھری خوب تیزہو،خصی کی قربانی افضل ہے،اگرکسی شخص کی آمدنی حرام مال کی ہو تواس کو قربانی میں شامل نا کیا جائے ورنہ کسی کی قربانی نہیں ہوگی۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں