دیہات کی بدلتی ہوئی ثقافت/ ابن نظر

ایک وقت ایسا تھا جب ایک خاندان بڑی مشکل سے ایک مکان کی تعمیر کرتا تھا کئی سالوں کی محنت و مشقت کے بعد عزیز رشتہ داروں کی مدد سے مکان تعمیر اور اس میں رہائش رکھنے کے قابل ہوتا تھا قیام پاکستان کے بعد جب پوٹھوا ر کے لوگوں کو روزگار کے مواقع ملنا شروع ہوئے کراچی

سے اسلام آباد الحکومت کی منتقلی نے یہاں کے مقامی لوگوں کی خاطر خواہ ملازمتوں کے ملنے سے لوگ ہوئے کہ رہنے کے لیے ایک مکان تعمیر کر سکیں ۔مکان ایک بڑے کمرے پر مشتمل ہوتا تھا جس کی دیواریں مقامی طور پر اگٹھے کیے گئے پتھروں سے بنائی جاتی تھیں اور چھت لکڑی کی بڑی بڑی کڑیوں کو سہاروں پر کھڑا کر کے بنایا جاتا تھا

مکان کے ایک حصے میں مال مویشی اور دوسرے حصے میں روزمرہ کا استعمال کا سامان ،اناج کی کوئی( صندوق)اور درمیان میں چارپائیوں کوآرام کی خاطر بچھایا جاتا۔ا ن مکانوں کے بڑے بڑے صحن ہوتے جب مکان اتنی مشکل سے تعمیر ہوتا تھا

تو چار دیواری کی تعمیر کیسے ہو اس لیے اکثر مکان ایک دوسرے کی طرمنہ کر کے بنائے جاتے کسی دوسرے مکان کی طرف کم ہی پشت کر کے بنایا جاتا تھا ،گیدڑ ،جنگلی جانوروں سے محفوظ رہنے کے لیے سرکنڈوں سے کام لیا جاتا ہمارے مکانوں کی یہ تصویر زیادہ پرانی نہیں ۔50یا60سال قبل کی ہے ان مکانوں کے مکین اب بھی زندہ ہیں اور بڑی خوشی سے داستان سناتے ہیں۔
اس تمہید کا مقصد یوں ہے کہ سہولیات ناپید ،وسائل کی کمی کے باوجود ہمارے آباؤ اجداد انتہائی سلیقہ مند تھے ،صحن صاف ستھرے،مکان سرخ ،کالی اور سفید مٹی سے پینٹ کئے ہوئے فرش اور دیواریں ان کی ہنر مندی اور سلیقہ شعاری اور محنت کا پتہ دیتی تھیں ۔ہماری کوشش ،بے کاراور محنت سے جی چرانے والے ہوتے تو اس دور میں بھوکے مرجاتے اور ہماری نسلیں ختم ہوچکی ہوتیں ۔
آج پوٹھوار کے لوگوں کے رہن سہن ،رہائشہ مکانات ان کے اندر بنائی گئی سہولیات گلی،محلہ،سڑکوں اور بازاروں کے حالات کسی ترقی یافتہ علاقے سے کم نہیں اس سب کے باوجود گردونواح میں صفائی،ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے میں سخت ناکام ہیں۔اس سے صاف ستھرا ماحول رکھنے میں بالکل مجبور و بے بس ہیں کسی بھی مشہور گاؤں کے داخلی راستوں پر بنائے گئے

پولٹری شیڈ اور گائیوں بھینسوں کے ڈیرے اور ان کے اطراف گوبر کے بڑے بڑے ڈھیر ہمارا منہ چڑھا رہے ہیں لاکھوں کروڑوں خرچ کر کے چند ٹکوں کے منافع کے لیے رہن سہن کی جگہوں کو اتنا گندا کر رہے ہیں دن کے چوبیس گھنٹوں میں کئی ہزار سانس لیتے ہیں اور تعفن زدہ ہوا ہماری سانسوں کو کتنا خالص بتاتی ہے یہ ہم نے کبھی نہیں سوچا نکاسی آب کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بھی ہمارا اردگرد کا ماحول بہت پراگندہ ہوچکاہیسیوریج کے لیے پختہ نالوں کی تعمیر ہنگامی بنیادوں پر کر کے ماحول کا تعفن زدہ ہونے سے بچا سکتے ہیں

رہائشی مکانوں اور کالونیوں میں گوبرکے ڈھیر کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہا نہ ہی ان فارمز کی تعمیر کی حوصلہ شکنی کی جارہی ہے۔نتیجتا ہمیں بیماریاں ورثہ میں مل رہی ہیں جانوروں کا پالنا ہماری ضروریات زندگی کیلئے بہت ضروری ہے ۔گوشت دودھ حاصل کیا جاتا جو ہماری خوراک کا لازمی جزو ہیں خدارا گوبر کے ڈھیروں اور مال مویشی کی آلائشوں کو ٹھکانے لگانے کا خاطر خواہ بندو بست کیاجائیاور اگر یہ ڈیرے،شیڈ رہائشی مکانوں اور راستوں سے دور بنائے جائیں تو بہت ہی بہتر عمل ہے۔
اس اہم مسئلہ کی جانب مقامی حکومتیں توجہ نہیں دے رہی ہیں اور نہ صوبائی حکومت کو اس سے سروکار ہے ۔ایسے شیڈ تعمیر کرنے کے لیے تحصیل یا ضلع کی حکومت سے اجازت نامہ اور محکمہ صحت اور وزارت ماحولیات سے (NOC)

لینا ضروری ہوقانون سازی کے ذریعے موثر طریقے سے اس کا راستہ روکا جائے مقامی منتخب نمائندگان کو آبادیوں سے دور ایسے شیڈ بنانے اور گوبر کے ڈھیروں کو ختم کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔حال ہی میں محکمہ پبلک ہیلتھ انجینرنگ نے ’’انسانی فضلہ سے پاک دیہات‘‘پروگرام کا آغاز کیا ہے اور اس کے لیے کمیونٹی ڈویلپمنٹ آفیسر راولپنڈی نے کام بھی شروع کر رکھا ہے

۔یہ ہمارے اب ہمارے علاقہ پوٹھوار میں ختم ہو چکا ہے لوگ رفع حاجت کے لیے کھلی جگہوں کا استعما ل نہیں چاہے دیہات ہو یا شہر ۔اب ان شیڈز،فارمز کے فضلہ جات اور اس سے پیدا ہونے والے تعفن اور بیماریوں سے عاجز آچکے ہیں اس کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

محکمہ پبلک ہیلتھ انجینرنگ راولپنڈی ڈویژن کو زمینی حقائق دیکھ کر پروگرام کا آغاز کرنا چاہیے او ایک سروے اور پروگرام ’’جانوروں کے فضلہ سے پاک دیہات‘‘ شروع کرنا چاہیے تاکہ لوگوں کی عملی خدمت کے ساتھ ان کی صحت کی بہتری ممکن ہو۔{jcomments on}

اپنا تبصرہ بھیجیں