گاؤں یا دیہات کا نام سُنتے ہی ذہن میں کُھلی فضا،لہلہاتی اور ہری بھری کھیتیاں، پُرسکون ماحول ،تازہ ہوا،کچے مکان ،سادہ اور معصوم لوگ اور خالص غذا کا تصور اُبھرتا ہے جہاں افراد ایک دوسرے کے دُکھ درد کو سمجھتے ہیں ،خوشیوں کو محسوس کرتے ہیں۔مکروفریب سے کام نہیں لیتے ایک دوسرے کو دھوکا نہیں دیتے
.بڑوں کی دل سے عزت کرتےہیں اور چھوٹوں کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ وہ آئندہ زمانے میں ایک اچھے انسان کی مانند زندگی بسر کرنے کے قابل بن جاتے ہیں ۔
اگر گاؤں کی معاشرت کا بغور مشاہدہ کیا جائے تو اس کی بعض ایسی اقدار جو کبھی اس کے ماحول کا لازمی حصہ سمجھی جاتی تھیں انہیں ہم نے ترک کردیا ہے
اور ان کو نام نہاد جدید معاشرتی نظام کی مصنوعی اقدار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے جس سے اگر خوشی حاصل ہوتی ہے تو وہ بھی مصنوعی مسکراہٹ یا قہقہے کی شکل میں ہوتی ہے جو صرف لبوں تک محدود ہوتی ہے ، اس سے کبھی دل کے تاروں میں ارتعاشی کیفیت پیدا نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ انسان اگرچہ جسمانی طور پر ایک دوسرے کے قریب بھی ہوں تو پھر بھی دلی طور پر کوسوں دُور ہوتے ہیں ۔
دیہی معاشرے میں لوگ دلی طور پر ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے تھے ان میں محبت اور احترام کا رشتہ تھا ،اتفاق واتحاد اور یگانگت کا جذبہ تھا اگرچہ ان کے گھروں میں چاردیواری نہیں ہوتی تھی مگر کسی کی عزت وآبرو کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا ،
لوگ ایک دوسروں کے صحن سے گزر کر دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے اور گھر والوں کی خیر خبر بھی پوچھتے جاتے تھے مگر کسی کو نہ کوئی اعتراض ہوتا تھا اور نہ دل میں کدورت .آج ہر گھر میں اُونچی اُونچی چاردیواری بن گئی ہے مگر نہ کوئی گھر آتا ہے اور نہ خیر خیریت پوچھتا ہے حتٰی کہ سگے بہن بھائ بھی ایک دوسرے کے گھر کبھی کبھی آتے ہیں ۔
پہلے دیہی معاشرے میں مل جُل کر کام کرنے کا رواج تھا .
فصل کی کٹائی اورگُہائی کرنی ہو ،نئے چھت پر مٹی ڈالنا ہو یا چِکنی مٹی کا لیپ کرنا ہو، شادی بیاہ یا کسی کی وفات کی صورت میں قبر کی کُھدائی کا کام کرنا ہو یا پکوان تیار کرنا ہوپورے گاؤں کے افراد مل کر کرتے تھے ایسے مواقع پر پورے محلہ کے گھروں سے چارپائیاں لا کر بچے اور نوجوان شادی یا موت والے گھر بچھا دیتے .موت والے گھر والوں کا کھانا اہلِ محلہ کی ذمہ داری تھی اس گھرمیں چولہا نہیں جلتا تھا
.اب دورِ جدید میں فصلوں کی کٹائی ،گہائی وغیرہ کا کام مشینوں کے ذریعے ہو جاتا ہے اہلِ محلہ سے چاپائیوں کی بجائے کرائے پر کرسیاں منگوا لی جاتی ہیں کھانا رقم دے کر تیار کروا کر مہمانوں کو کھلا دیا جاتا ہے محبت کے رشتے ختم کرکے دھن دولت کے رشتوں سے ناتا قائم کرلیا گیا ہے ۔
شادی بیاہ کے موقع پر دلہا کے دوست کئی روز تک بھنگڑا ڈالتے تھے ،گیت گاتے تھے اور دلہا کے گھر کے کاموں میں مدد کرتے تھے اسی طرح دلہن کی سکھیاں ڈھولک پر شادی بیاہ کے گیت گاتی پھرتی تھیں . ڈھول کی تھاپ پر اور شہنائی کی گونج میں گاؤں کے نوجون رقص کرتے .دلہا کو خصوصی طور پر تیار کی گئی گھوڑی پر سوار کروا کر دلہن کے گھر بارات لے کر جاتے تھے
اسی طرح دلہن کیلئے خاص طور پر پالکی تیار کی جاتی تھی جس میں دلہن کو بٹھایا جاتا تھا اور کہار پالکی کو اُٹھا کر دولہا کے ساتھ اُس کے گھرلے جاتے تھے .اس رسم میں بہت سے لوگوں کی خوشیوں کا سامان موجود تھا مگر اب دورِ جدید میں دلہا اور دلہن کو سجی سجائی گاڑیوں میں بٹھا کر لایا جاتا ہے جس سے کہار اور گھوڑی کے رکھوالے بے روزگار ہوگئےہیں ۔
دیہی معاشرے میں بڑے بوڑھوں کو خصوصی احترام دیا جاتا تھا
اور نوجوان اور بچے ان کے سامنے اونچی آواز میں گفتگو نہیں کرتے تھے اور ان کے فیصلوں کو بلا چون وچرا قبول کرلیتے تھے .اب بچوں میں احترام کا جذبہ سرد ہوتا جارہا ہے اور وہ بزرگوں کی باتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ ان میں لڑائی جھگڑے اور غیراخلاقی عادات فروغ پارہی ہیں ۔
دیہی معاشرے میں بچے اور نوجوان کبڈی، گُلی ڈنڈا،رسّہ کشی ،کُشتی ،تیراکی اور دوڑ کے مقابلوں جیسی صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے
یہی وجہ ہے کہ اُن کی صحت قابلِ رشک ہوتی تھی مگر اب بچے موبائل گیم اور ٹی وی سے گھر بیٹھ کر دل بہلاتے ہیں اسی بناء پر نئی نئی بیماریوں کے زیرِ اثر رہتے ہیں۔
اگرچہ دیہی معاشرے میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں مگر دیہات میں بسنے والے ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اور راہ چلتے ہی سہی ایک دوسرے کا حال احوال پوچھ لیتے ہیں .
گاؤں کے قدرتی مناظر ،سرسبز سایہ دار درخت، لہلہاتے کھیت، صاف وشفاف بہتا پانی ، خوبصورت اور خوش گُلو پرندے ،صبح وشام کے دلفریب مناظر اور تازہ ہوا کی بدولت دیہات میں زندگی اب بھی قدرت کی طرف سے عطاء کردہ ایک تحفہ سے کم نہیں