دین کی تعلیم کس حد تک ضروری ہے؟

ُپروفیسرمحمد حسین

کیا انسان کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ معاشرے میں مذہبی اور دینی تعلیم و تربیت سے عاری ہوکر زندگی کے قیمتی لمحات گزارے یا پھر اسے تعلیم وتربیت ‘ تہذیب وشائستگی اور اخلاق و آداب کی بھی ضرورت ہے ؟ یقینی بات یہ ہے کہ تعلیم وتربیت ‘ تہذیب وشائستگی اور اخلاق وآداب انسان کی بافصیت کے لئے ناگزیر ہے اس کا انکار دن میں آفتاب کے انکار کے مترادف ہوگا.

ہر زمانے میں تعلیم یافتہ شخص کی قدروقیمت رہی ہے تعلیم کے بغیر ترقی کی خواہش فضول سی بات ہے کوئی معاشرہ سوسائٹی اور ملک اس وقت تک ترقی کی صف میں کھڑا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہاں کے لوگ زیورتعلیم سے آراستہ نہ ہوں ‘ خالق کائنات نے انسان کو کامل ومکمل بنانے کے لئے ہر طرح کا انتظام کیا ہے انبیاء ورسل کی بعثت کا سلسہ قائم فرمایا قوانین وضوابط اوردستورحیات اتارے تاکہ انہیں اپنا کر وہ خیرالناس کی فہرست میں شامل ہو سکے دنیا میں امن وامان کی پربہار ہوا چلتی رہے اور صالح وصحت مند معاشرے کی تشکیل ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے قوانین اور انبیاء ورسل کے ذریعے ان کی تلقین وتشریح ہی کا دوسرا نام دینی تعلیم ہے.

اب اگر کوئی قوم اپنی بنیادی دینی تعلیم سے منہ پھیر کر عصری تعلیم کے حصول میں رات دن ایک کر دے اور اسے ہی ترقی کی معراج تصور کرنے لگے تو اسے وقتی اور دنیاوی فوئد اور عہدے ومناسب یقیناًحاصل ہوں گے مگر دیر پا اور اجزوی فوائد سے نہ صرف ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے بلکہ آئندہ کی دائمی حیات خطرے میں پڑسکتی ہے ہم مسلمان قوم ہیں ہماری الگ شریعت وسماج اور روشن تعلیمات ہیں جن پر غیر اقوام بھی رشک کر تی ہیں.

جن کے بارے میں رسول اللہ ؐ نے فرمایاِ ‘‘طلب العلم فریضہ علیٰ کل مسلم ‘‘ علم کی فضیلت کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ اتنا علم اور اتنی دینی تعلیم ہر مسلم مرد عورت کے لئے بے حد ضروری ہے جن سے وہ دین پر صیح طور سے عمل پیرا ہو سکیں اور شریعت کے مطالبات کو روبہ عمل لا کر نگاہ شریعت میں معتبر بن سکیں پھر اللہ اور رسول ؐ کے محبوب بن کر اپنی عاقبت سدھار کر زندگی گزار سکیں جو ایک مسلمان کا نصب العین ہے.

آج دینی تعلیم سے بے رغبتی روز افزوں ہے جس مذہب نے دینی تعلیم کو تمام مردوں اور عورتوں کے لئے فرض قراق دیا ہو اور جس مذہب میں علم وحکمت سے پر قرآن جیسی عظیم کتاب ہو اور جس مذہب کی شروعات اقراء سے ہوئی ہو اسی مذہب کے ماننے والے دینی تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں قانون وراثت کو نصف علم بتانے والے رسول ؐ کی امت میں اس کا علم رکھنے والے کھانے میں نمک کے برابر بھی نہیں علامہ اقبال نے تعلیم کو امراض ملت کی دوا اور خون فاسد کے لئے مثل نشتر بتایا ہے.

لیکن اس دور کی فکر کتنے لوگوں کو ہے ؟ماں کی گود بچے کے لئے پہلا مکتب ہوتا ہے اب اگر ماں ہی دینی تعلیم سے بیزار ہے تو انداذہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر کیا اثرات پڑیں گے اگر گھر کے بزرگ افراد ہی دینی تعلیم سے تہی دامن ہوں تو وہ اپنے نونہالوں کی کیا ذہن سازی کریں گے مسلمانوں کے گھروں میں دینی تعلیم کی کمی تشویشناک حد تک ہے آج مسلمانوں اور ان کے بچوں کو قرآن وحدیث کے مطالعہ کی فرصت ہی نہیں.

لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر ہی نہیں کرتے جو زندگی کزارنے کے لئے ضروری ہے وہ بچے جو کل کا مستقبل اور سرمایہ ہیں جب ہوش کی عمر کو پہنچیں گے توان سے دین کی عزت وتکریم کی توقع بے سود ہے ہر طرف دنیاوی علوم کے حصول کا شور وغوغا ہے ہر افراد اسی تاک میں ہیں کہ کیسے علیٰ دنیاوی تعلیم حاصل کر کے نوکری کے کر اور زیادہ تنخواہ حاصل کرے.

اسلام دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کی راہ میں حائل نہیں ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ دینی تعلیم کو فراموش کر کے عصری تعلیم کا حصول خدائی گرفت کا موجب ہے دینی تعلیم تو بنیادہے اور عصری تعلیم دیواریں بنیاد کے بغیر دیوار کا تصور احمقانہ تصور کہلائے گا اور وہ حضرات جن کی رگوں میں دینی غیرت و حمیت کا خون بلکل سرد نہیں ہو ا ہے ان میاں سے کچھ لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینا چاہتے ہیں لیکن طریقہ کار غلط ہوتا ہے کہ دن بھر میں صرف ایک گھنٹہ ٹیوشن کے نام پر کسی مولوی یا استانی کو مامور کر دیتے ہیں یہ ہوتا ہے کہ بچوں کی بنیادی تعلیمات نقص کا شکار ہو جا تی ہیں.

آج مسلمانوں کی بہت بڑا طبقہ ایسا ملے جسے سیرت رسولؐ کی موٹی موٹی باتیں معلوم نہیں بہت سے لوگوں کو نماز ودیگر عبادات کے فرائض وسنت کا علم نہیں اسلام کی بنیادی عقائد کی مصروفت نہیں ہمارے بہت سے مسلم بچے کلمہ تک نہیں جانتے دینی تعلیم کے ترک کا ہی منفی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی اکثریت نماز پنج گانہ سے غافل ہو کر دربارالٰہی میں پانچ وقت کی حاضری سے محروم ہوگئی اور یہ حاضری جمعہ و عیدین تک محدود ہوگئی اس کے جسم سے اسلامی لباس رخصت ہو گیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا وہ حضرات خوش نصیب ہیں .

جو دینی تعلیم کے حصول میں دن رات مشغول ہیں کچھ نہیں تو وہ قرآن و نماز درست پڑھتے ہیں عموما اس کا رونا ہے کہ بچے والدین کی عزت نہیں کرتے اور من مانی کرتے ہیں غلط راہ پر گامزن ہیں تو اس بیماری کا واحد حل بچوں کو دینی تعلیم اور اسلامی اخلاق سے آراستہ کرنا ہے اسی میں گھر اور معاشرے کا سکون ہے ذراسوچئے ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب پر مضبوطی سے قائم ہیں .

اور ہم مسلمان من حیث القوم کہاں جارہے ہیں ؟ہماری منزل اور نصب العین کیا ہے اور کیا ہونا چاہیے کچھ پتہ نہیں دینی تعلیم سے بے توجہی کا گلہ کس سے کیا جائے ؟کیا ہماری بربادی کا باعث دینی علوم کا ترک نہیں ہے ؟دراصل ہم نے سوچنا چھوڑ دیا ہے دینی علوم ایک ایسا چراغ ہے جس کی روشنی سے تنگ وتاریک دل کشادہ اور روشن ہو جاتے ہیں اور ہماری دنیا اور آخرت سنور سکتی ہے ہمارے لئے یہ لازم ہے کہ ہم علم دین خود سیکھیں اور اپنی اولادو متعلقین کو سکھایں اور اس کی نشرواشاعت گھر گھر پہنچانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں وقت کا تقاضا یہی ہے اور وقت کی پکار بھی یہی ہے اور شریعت بھی یہی چاہتی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں